خاران میں ایف سی، ڈی سی، کھلی کٗچہری، اور عوام ۔ بشیر بلوچ

320

خاران میں ایف سی، ڈی سی، کھلی کٗچہری، اور عوام

تحریر: بشیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے شہر خاران میں اچانک ریاست اور اسکے کارندوں کو عوام کی مسائل کا سننے خیال آیا سوال یہ ہے کیوں؟ جیسا کہ بلوچستان میں سیاسی موومنٹ جو روز بروز شدت کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور اسی دوران مسلح جدوجہد بھی ایک ایسی شدت اور منظم انداز سے آگے بڑھ رہا ہے جس سے ریاست کے انٹلیجنس اور فوج بوکھلاہٹ اور انکے پالیسی مکمل طور پرناکام ہو گئے۔

یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ رشتہ ظالم اور مظلوم کی ہے اور اس کے برعکس ہر قبضہ گیر اپنے قبضہ گیرت کو مزید جاری رکھنے کیلئے مختلف طور طریقے استعمال میں لاتا ہے جس سے علاقائی آبادی کے سوچ اور انکے ذہنیت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کیلئے سافٹ پالیسی اختیار کرتا ہے۔ ان پالیسیوں میں ڈویلپمنٹ پروجیکٹ بھی شامل ہیں۔ اسی پالیسی کے حوالے سے لکھا گیا ہے جب افریقہ میں برٹش امپائر نے ڈویلپمنٹ کا زریعہ استعمال کیا تو ادھر مشہور مفکر نے اس کیلئے یہ لکھا کہ ہمیں برٹش کے ٹینک قبول ہیں لیکن انکے مارکیٹ اور ڈویلپمنٹ نہیں کیونکہ یہ پروجیکٹ افریقہ کے عوام کی ذہنیت کو کنٹرول میں لانے کیلئے برٹش استعمال کررہا ہے۔

اسی طرح ریاست اپنے MPA شعیب نوشیروانی کے ذریعے خاران میں ماسٹر پلان کے ایک پروجیکٹ کا آغاز کرنا چاہتا جس کا مقصد خاران میں سیاسی شورش کو کنٹرول اور خاران کے عوام کےذہن میں قومی تحریک سے دوری پیدا کرے، جو کچھ دن پہلے خاران میں احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا جو جبر گمشدگی کے خلاف تھا۔ یہ سلسلہ کافی سالوں بعد بی وائی سی کے لیڈران کی محنت کی سبب ہے جس نے بلوچستان کے کونے کونے میں مزاحمت کا راستہ اور طریقہ کار کو عام آبادی تک پہنچایا اور خاران بھی اس مزاحمت میں پیش پیش رہا یہ سیاسی اقدام خاران میں موجود ڈیتھ سکواڈ اور ریاستی بندوں کو پسند نہ آیاجو پہلے خاران کے شہر میں لوگوں کے گھروں دکانوں میں چوری جیسی واقعات میں ملوث ہیں۔

خاران جو قبائلی نظام سے آگے قومی شعور حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کررہا ہے، تریاست نے قبائلی نظام کو معاشرے کے اندر انجیکٹ کرنا سٹارٹ کیا ہے۔ جو سردار چنگیز ساسولی، کے ہمراہ سرنڈر شدہ افراد کی شکل میں موجود ہے اور خاران کے ایک جنگ زدہ علاقے سے تعلق رکھنے والا مفتی ممتاز ساسولی کی سربراہی میں قبائلی جرگے کرنا لوگوں کو بزور ءِ طاقت لوٹنا انکے زمینوں پہ قبضے کرنا اور پھر بلوچی روایات کا سہارہ لیکر فیصلہ کرنا عوام کے ساتھ حاکموں جیسا سلوک کرنا جو سب ریاست کی پشت پناہی میں ایک پروسس کے تحت ہورہے ہیں۔

دوسری طرف ایف سی کرنل اور ڈی سی جو خاران میں مشہور ہے کہ ایم آئی والا ہے ان سب ریاست کے دلادوں کا کھلی کچہری کرنا اور عوام سے ہمدردی کرنا ان کے مسائل سننا سب ایک سافٹ پالیسی کے تحت خاران کو مزید سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کی سازش ہے اور اس میں وہ سب شامل ہیں جو اس میں عوام کو گمراہ کرکے اس کچہری کا حصہ بنا رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی خواہش مند ہیں، ان کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹورک متفقہ ہے یا اس کے خیالات کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔