حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد حزب اللہ کے نئے سربراہ کون ہوں گے، تنظیم کا مستقبل کیا ہوگا؟

175

لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد لبنان اور اس عسکری تنظیم سے جڑے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔

حسن نصر اللہ ایک ایسی شخصیت تھے جنھوں نے کئی دہائیوں تک لبنان اور اس پورے خطے کے سیاسی منظر نامے کو تبدیل کیے رکھا اور ان کی ہلاکت نے حزب اللہ کی قیادت میں ایک بڑا خلا پیدا کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امکان ہے کہ نصر اللہ کے بعد حزب اللہ کے نئے سربراہ ان کے کزن ہاشم صفی الدین ہوں گے جو فی الحال تنظیم کے سیاسی امور کی نگرانی کرتے ہیں اور عسکری کارروائیوں کے لیے قائم جہاد کونسل کے بھی رکن ہیں۔

حسن نصر اللہ کی موت کے بعد نہ تو لبنان میں اسرائیلی کارروائیاں بند ہوئیں اور نہ ہی لبنان سے اسرائیل کی جانب راکٹ داغنے کا سلسلہ بند ہوا۔ لیکن جو اہم سوال پیدا ہوا وہ یہ کہ اب آگے کیا ہو گا؟

امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک اور کچھ عرب ممالک بھی ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیتے ہیں جبکہ لبنان کی حکومت حزب اللہ کو اسرائیل کے خلاف ایک ’جائز مزاحمتی گروپ‘ سمجھتی ہے۔

حسن نصر اللہ کی غیر موجودگی میں حزب اللہ کے لیے چیلنجز

لبنان کے اخبار ’النهار‘ سے منسلک صحافی ابراہیم بیرام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حسن نصر اللہ کی ہلاکت ایک ایسا غیر معمولی واقعہ تھا، جو اسرائیل کے خلاف محاذ آرائی کے حوالے سے حزب اللہ کے عزم کو تبدیل نہیں کرے گا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب غزہ میں جنگ جاری ہے۔‘

ابراہیم بیرام نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ حزب اللہ انتہائی وفاداری کے ساتھ ’نصر اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔‘

بیرام نے مزید کہا کہ لبنان میں حسن نصر اللہ کی موت پر ملے جلے جذبات ہیں۔ ’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس بارے میں خوشی محسوس کرتے ہیں جبکہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں، جو اسے حزب اللہ کے لیے شدید دھچکا سمجھتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’خود حسن نصراللہ کو بھی معلوم تھا کہ ان کا انجام پارٹی کے سابق رہنماؤں جیسے کہ حزب اللہ کے سابق سربراہ عباس الموسوی جیسا ہی ہو گا۔‘

یاد رہے کہ اسرائیل نے سنہ 1992 میں عباس الموسوی کو قتل کر دیا تھا۔

اسرائیل کی جانب سے حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے اعلان کے بعد ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے پہلے بیان میں نصر اللہ کا نام لینے سے گریز کیا تاہم انھوں نے لبنان میں شہریوں کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اسرائیلی رہنماؤں کی ’حماقت‘ قرار دیا۔

خامنہ ای نے کہا کہ ’اسرائیلی مجرم حزب اللہ کو کوئی خاص نقصان پہنچانے سے قاصر ہیں۔‘

انھوں نے مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے میں لبنانی عوام اور حزب اللہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔

پروفیسر اور مصنف محمد علی مقلد کا ماننا ہے کہ حسن نصر اللہ کی موت لبنان کے لیے ایک ایسا موقع ہے جس کے ذریعے وہ اپنے علاقوں پر خودمختاری حاصل کرنے کی بہت پوزیشن میں آ سکتا ہے۔

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت سے ’لبنان میں سیاسی حل کا دروازہ کھل سکتا ہے، جس میں صدارتی انتخابات کا انعقاد اور حزب اللہ کے لبنانی ارکان کے تحفظ کو یقینی بنانا شامل ہے، جنھوں نے اس ایرانی منصوبے کو ترک کیا، جس کا لبنان سے تعلق نہیں۔‘

ایران اس بات پر زور دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت سے خطے میں حزب اللہ کی صلاحیت یا پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور قیادت میں تبدیلی کے باوجود حزب اللہ کی طاقت اور اثر و رسوخ مزید بڑھے گا۔

ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سابق کمانڈر احمد وحیدی کہتے ہیں کہ ’حزب اللہ نے بہت سے لیڈروں کو تربیت دی اور ہر مرنے والے لیڈر کے بدلے دوسرا لیڈر میدان میں آتا ہے۔‘

دوسری جانب امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر مائیک جانسن نے حسن نصر اللہ کی ہلاکت کو مشرق وسطیٰ کے لیے ’اہم پیشرفت قرار‘ دیا۔

محمد علی مقلد کا ماننا ہے کہ سیاسی میدان میں حسن نصر اللہ کی غیر موجودگی سے حزب اللہ کے ارکان تقسیم ہو سکتے ہیں جبکہ ان کی اکثریت لبنانی حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے ایران سے پیچھے ہٹ جائے گی۔

حزب اللہ کا نئے سربراہ ہاشم صفی الدین کون ہیں؟

حسن نصر اللہ کی موت کے بعد بیروت کی گلیوں میں غم و غصہ دیکھا گیا جبکہ کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر بھی اپنے دکھ کا اظہار کیا۔

حزب اللہ کے ’المنار چینل‘ نے حسن نصر اللہ کی موت کے اعلان کے بعد قرآن کی آیات نشر کرنا شروع کر دیں۔

اسی دوران اسرائیلی حملوں کے پیش نظر بے گھر ہونے والے بہت سے افراد لبنان کی سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔

لبنان کی وزارت صحت کے اندازوں کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 800 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

صحافی ابراہیم بیرام کے نزدیک سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حسن نصر اللہ کے بعد حزب اللہ کی باگ دوڑ اب کون سنبھالے گا۔

حزب اللہ کی ایگزیکٹو باڈی کے صدر ہاشم صفی الدین ممکنہ طور پر حزب اللہ کے اگلے سربراہ ہوں گے لیکن ابراہیم بیرام کے مطابق سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ ’کیا وہ حسن نصراللہ کی طرح پارٹی کو سنبھال سکیں گے۔‘

ابراہیم بیرام نے مزید کہا کہ ’تقریباً چار دہائیوں سے یہ توقع نہیں تھی کہ حسن نصر اللہ جیسی شیعہ شخصیت اسرائیل کے ساتھ تنازع میں اتنا اہم کردار ادا کرے گی تاہم ان کے مقابلے کی شخصیت آنے میں بھی ابھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔‘

ابراہیم بیرام نے حسن نصر اللہ کو ’بے مثال رہنما‘ کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے پارٹی کو سیاسی اور عسکری طور پر اکٹھا کیا۔

روئٹرز کے مطابق ہاشم صفی الدین کو امریکی محکمہ خارجہ نے 2017 کے دوران دہشتگرد قرار دیا تھا۔ ان کے ماضی کے بیانات سے واضح ہے کہ وہ فلسطینی مزاحمت اور عسکری کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔

حسن نصر اللہ کا غریب محلے سے حزب اللہ کی قیادت تک کا سفر

حسن نصر اللہ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ وہ بیروت کے مشرق میں ایک غریب محلے میں پیدا ہوئے۔

جب لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ان کی عمر پانچ سال تھی۔ یہ ایک تباہ کن جنگ تھی جس نے بحیرہ روم کے اس چھوٹے سے ملک کو 15 سال تک اپنی لپیٹ میں رکھا اور اس دوران لبنانی شہری مذہب اور نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑے۔

اس دوران مسیحی اور سنی ملیشیا گروپوں پر الزام لگا کہ وہ بیرونی ممالک کی مدد حاصل کرتے ہیں۔

جنگ کے آغاز کی وجہ سے حسن نصراللہ کے والد نے بیروت چھوڑنے اور جنوبی لبنان میں اپنے آبائی گاؤں واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں شیعہ اکثریت تھی۔

حسن نصر اللہ 15 سال کی عمر میں اس وقت کے سب سے اہم لبنانی شیعہ سیاسی عسکری گروپ کے رکن بن گئے جس کا نام ’امل موومنٹ‘ تھا۔ یہ ایک بااثر اور فعال گروپ تھا جس کی بنیاد ایرانی موسی صدر نے رکھی تھی۔

اس دوران نصراللہ نے اپنی مذہبی تعلیم بھی شروع کی۔ نصراللہ کے اساتذہ میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ وہ شیخ بننے کا راستہ اختیار کریں اور نجف جائیں۔ حسن نصر اللہ نے یہ مشورہ قبول کر لی اور 16 سال کی عمر میں عراق کے شہر نجف چلے گئے۔

حسن نصر اللہ کی نجف میں موجودگی کے دوران عراق ایک غیر مستحکم ملک تھا جہاں دو دہائیوں تک مسلسل انقلاب، خونی بغاوت اور سیاسی قتل و غارت کا راج رہا۔

حسن نصر اللہ کے نجف میں قیام کے صرف دو سال بعد بعث پارٹی کے رہنما اور خاص طور پر صدام حسین کے فیصلوں میں سے ایک یہ تھا کہ تمام لبنانی شیعہ طلبا کو عراقی مدارس سے نکال دیا جائے۔

حسن نصر اللہ نے نجف میں صرف دو سال تعلیم حاصل کی اور پھر انھیں یہ ملک چھوڑنا پڑا لیکن ان کی نجف میں موجودگی نے اس نوجوان لبنانی کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی ملاقات نجف میں عباس موسوی نامی ایک اور عالم سے بھی ہوئی۔

موسوی، جو کبھی لبنان میں موسی صدر کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے، روح اللہ خمینی کے سیاسی نظریات سے بہت متاثر تھے۔ وہ نصر اللہ سے آٹھ سال بڑے تھے اور بہت جلد انھوں نے ایک سخت استاد اور ایک بااثر رہنما کا کردار سنبھال لیا۔

لبنان واپس آنے کے بعد یہ دونوں مقامی خانہ جنگی میں شامل ہو گئے تاہم اس بار نصر اللہ عباس موسوی کے آبائی شہر گئے جہاں آبادی کی اکثریت بھی شیعہ تھی۔

اس دور میں نصراللہ تحریک امل کے رکن رہے اور عباس موسوی کے قائم کردہ مدرسے میں تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔

حسن نصر اللہ کی لبنان واپسی کے ایک سال بعد ایران میں انقلاب آیا اور روح اللہ خمینی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہاں سے نہ صرف لبنان کی شیعہ برادری کا ایران کے ساتھ تعلق بالکل بدل گیا بلکہ ان کی سیاسی زندگی اور مسلح جدوجہد بھی ایران میں رونما ہونے والے واقعات اور نظریے سے شدید متاثر ہوئی۔

حسن نصراللہ نے بعد میں تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اس وقت کے رہنما سے ملاقات کی اور خمینی نے انھیں لبنان میں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔

یہیں سے حسن نصراللہ کے ایران کے دوروں کا آغاز ہوا اور ایرانی حکومت میں فیصلہ ساز اور طاقت کے مراکز سے ان کے تعلقات قائم ہوئے۔

اس عرصے کے دوران خانہ جنگی میں گھرا لبنان فلسطینی جنگجوؤں کے لیے ایک اہم اڈہ بن گیا تھا اور قدرتی طور پر بیروت کے علاوہ جنوبی لبنان میں بھی ان کی مضبوط موجودگی تھی۔

لبنان میں بڑھتے ہوئی عدم استحکام کے بیچ اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا اور اس ملک کے اہم حصوں پر تیزی سے قبضہ کر لیا۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے فلسطینی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لبنان پر حملہ کیا۔

اسرائیل کے حملے کے فوراً بعد ہی ایران میں پاسداران انقلاب اسلامی کے فوجی کمانڈروں نے لبنان میں ایران سے وابستہ عسکری گروپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تحریک حزب اللہ تھی اور حسن نصراللہ اور عباس موسوی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے امل تحریک کے کچھ دیگر ارکان کے ساتھ اس نئے قائم ہونے والے گروپ میں شمولیت اختیار کی۔

اس گروہ نے بہت جلد لبنان میں امریکی افواج کے خلاف مسلح کارروائیاں کرکے خطے کی سیاست میں اپنا نام قائم کیا۔

جب حسن نصر اللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی تو ان کی عمر صرف 22 سال تھی اور وہ نوآموز سمجھے جاتے تھے تاہم نصر اللہ کے ایران سے تعلقات دن بہ دن گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ انھوں نے اپنی دینی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے ایران کے قم شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ نصراللہ نے دو سال تک قم میں تعلیم حاصل کی اور اس عرصے کے دوران فارسی سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایرانی اشرافیہ میں بہت سے قریبی دوست بنائے۔

لبنان واپسی پر ان کے اور عباس موسوی کے درمیان ایک اہم اختلاف پیدا ہو گیا۔ اس وقت موسوی شام کے صدر حافظ الاسد کے حامی تھے لیکن نصر اللہ نے اصرار کیا کہ حزب اللہ کی توجہ امریکی اور اسرائیلی فوجیوں پر حملوں پر مرکوز رہے۔

نصراللہ حزب اللہ میں اقلیت بن گئے اور کچھ عرصہ بعد انھیں ایران میں حزب اللہ کا نمائندہ مقرر کر دیا گیا۔ وہ ایک بار پھر ایران واپس آئے لیکن حزب اللہ سے دور ہو گئے۔

اس زمانے میں ایسا لگ رہا تھا کہ حزب اللہ پر ایران کا اثر و رسوخ روز بروز کم ہو رہا ہے۔ یہ کشیدگی اس حد تک بڑھی کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کو ہٹا کر ان کی جگہ شام کی حمایت کرنے والے عباس موسوی نئے سربراہ بن گئے۔

طفیلی کی برطرفی کے بعد، حسن نصراللہ واپس آ گئے اور عملی طور پر حزب اللہ کے نائب بن گئے۔

عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسرائیلی ایجنٹوں نے قتل کر دیا اور اسی سال 1992 میں اس گروپ کی قیادت حسن نصر اللہ کے ہاتھ میں چلی گئی۔