حزب اللہ کے زیرِ استعمال پیجرز میں دھماکے، کیا جاننا ضروری ہے؟

323

ایران نواز لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے زیرِ استعمال پیجرز میں ہونے والے دھماکوں میں نو افراد کی ہلاکت اور سیکڑوں کے زخمی ہونے کے واقعے کے بعد ماہرین پیجرز دھماکوں پر مختلف قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔

حزب اللہ نے پیجرز کے منگل کو ہونے والے ہلاکت خیز دھماکوں کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اسرائیل کو ان دھماکوں کی سزا دی جائے گی۔

تاہم اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ کمیونی کیشن کے چھوٹے سے آلے میں بڑے پیمانے پر دھماکے کس طرح ہوئے۔ اس کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد کس طرح ہوا جب کہ تحقیقات کرنے والوں نے بھی فوری طور پر یہ نہیں بتایا ہے کہ پیجرز کس طرح پھٹے ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اسرائیل نے منگل کو آپریشن مکمل ہونے کے بعد امریکہ کو اس پر بریفنگ دی۔ اس آپریشن کے دوران پیجرز میں دھماکہ خیز مواد کی معمولی سی مقدار کے ذریعے دھماکے کیے گئے تھے۔

اسرائیلی فوج نے پیجرز دھماکوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے جب کہ امریکہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے زیرِ استعمال پیجر دھماکوں میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں ہے۔

پیجرز دھماکوں سے متعلق اب تک ہم کتنا جانتے ہیں۔

پیجر کیا ہے؟

پیجر ایک چھوٹی سی وائر لیس کمیونی کیشن ڈیوائس ہے جسے بیپر یا بلیپر بھی کہا جاتا ہے۔ اس ڈیوائس کے ذریعے ٹیکسٹ اور وائس میسجز بھیجے اور موصول کیے جاتے ہیں۔

حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے اپنی تنظیم کے ارکان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے ہمراہ موبائل فونز نہ رکھیں کیوں کہ اسرائیل تنظیم کے اراکین کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتا ہے جس کے بعد حزب اللہ نے رابطے کے لیے پیجرز کا استعمال شروع کر دیا تھا۔

منگل کے روز لبنان اور شام میں تقریبأ بیک وقت پیجرز کے پھٹنے سے ایک آٹھ سالہ بچی سمیت کم از کم نو افراد ہلاک اور لگ بھگ تین ہزار زخمی ہوئے۔

پیجرز دھماکوں کے بعد حزب اللہ کے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کو بتایا کہ دھماکوں سے پھٹنے والی پیجرز کی ڈیوائسز نئی تھیں جسے تنظیم نے اس سے قبل استعمال نہیں کیا تھا۔

تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پیجرز کس کمپنی کی تھیں اور اسے کس نے سپلائی کیا تھا۔

نیویارک یونیورسٹی اسکول آف پروفیشنل اسٹیڈیز کے شعبہ سینٹر فار گلوبل افیئر سے منسلک انسٹرکٹر نکولس ریسی کہتے ہیں کہ پیجرز کے مقابلے میں اسمارٹ فونز کے ذریعے ہونے والی کمیونی کیشن کو انٹرسیپٹ کرنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے حملے حزب اللہ کے رابطوں کی حکمتِ عملی کو بدل دیں گے اور پیجرز حملوں میں بچ جانے والے نہ صرف پیجرز کا استعمال ترک کر دیں گے بلکہ وہ موبائل فونز، ٹیبلیٹس اور دیگر الیکٹرانک ڈیوائسز کے استعمال میں بھی محتاط ہو جائیں گے۔

امریکی عہدیدار کی جانب سے اس تصدیق کے بعد کہ یہ اسرائیل کے آپریشن کا نتیجہ ہے، پیجرز دھماکوں سے متعلق مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔

کئی ماہرین کے مطابق حزب اللہ کو پیجرز کی ترسیل سے قبل شاید ان میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا جنہیں ممکنہ طور پر ریڈیو سگنلز کی مدد سے بیک وقت تباہ کر دیا ہو۔

برطانیہ کے سابق بم ڈسپوزل افسر کارلوس پیرز کا کہنا ہے کہ دھماکہ خیز ڈیوائس میں پانچ بنیادی اجزا ہوتے ہیں جن میں کنٹینر، بیٹری، ٹریگرنگ ڈیوائس، ڈیٹونیٹر اور دھماکہ خیز مواد شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پیجرز میں پہلے ہی تین اجزا موجود تھے، آپ کو صرف اس میں ڈینٹونیٹر اور چارج شامل کرنا تھا۔

ان کے بقول پیجرز میں دھماکے کے وقت امکان ہے کہ بیٹری آدھی دھماکہ خیز ہو جب کہ آدھی بیٹری اصل بیٹری ہو۔

منگل کو لبنان کی مارکیٹ میں ہونے والے پیجر دھماکے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے دو ماہرین کہتے ہیں کہ دھماکہ ایک چھوٹی سی دھماکہ خیز ڈیوائس کا ہی نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔

سابق برطانوی فوجی افسر اور دھماکہ خیز مواد ڈسپوز کرنے والے سابق ماہر سین مورہاؤس کہتے ہیں ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکہ اسی طرح کا ہے جس طرح الیکٹرک ڈیٹونیٹر سے دھماکہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیجرز دھماکے اس جانب اشارہ ہیں کہ اس میں کوئی ریاست ملوث ہے اور اسرائیل کی غیر ملکی انٹیلی جینس ایجنسی موساد پر اس کا شک جاتا ہے جس کے پاس ایسے حملے کرنے کے وسائل موجود ہیں۔

فوجی ہتھیاروں کے ماہر این آر جینزن جانز کہتے ہیں ماضی میں اس طرح کے آپریشنز کا الزام اسرائیل پر لگتا رہا ہے۔

پیجرز آپریشن کتنا طویل تھا؟

لبنان میں اتنے بڑے پیمانے پر دھماکوں کے لیے طویل عرصے سے منصوبہ بندی کی گئی ہو گی۔ تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ منصوبہ بندی میں کتنا عرصہ لگا ہو گا لیکن ماہرین نے ‘اے پی’ سے گفتگو کے دوران اندازہ لگایا ہے کہ ان دھماکوں کی منصوبہ بندی میں کئی ماہ سے دو سال کا عرصہ لگا ہو گا۔

ریسی کہتے ہیں کہ جس انداز میں دھماکے ہوئے اس سے لگتا ہے کہ ملزم طویل عرصے سے انٹیلی جینس اکٹھی کر رہا تھا۔

ان کے خیال میں بڑے پیمانے پر ہونے والے دھماکوں سے لگتا ہے کہ پیجرز کی فروخت سے قبل اس تک ذاتی رسائی حاصل کی گئی تھی۔

سینئر پولیٹیکل رسک اینالسٹ ایلیجا جے میگنائر کہتے ہیں کہ انہوں نے حزب اللہ کے اراکین اور حملوں میں زخمی ہونے والے بعض افراد سے بات کی ہے جن کا بتانا ہے کہ پیجرز چھ ماہ قبل ہی خریدے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پیجرز نے چھ ماہ درست کام کیا لیکن لگتا ہے کہ ایک میسج میں خرابی کی وجہ سے تمام ڈیوائسز میں دھماکہ ہوا ہے۔

حزب اللہ ارکان سے ہونے والی گفتگو کے تناظر میں میگنائر کہتے ہیں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پیجرز کے اندر تین سے پانچ گرام دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا جو دھماکے کی وجہ بنا۔

جینزن جانز بھی کہتے ہیں کہ پیجرز دھماکوں میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والا آپریشن ہدف پر سوالات اٹھاتا ہے۔

حزب اللہ نے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ پیجرز دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں میں تنظیم کے دو ارکان شامل ہیں۔ حزب اللہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے ہلاک افراد میں حزبِ اللہ کے رکنِ پارلیمنٹ کے بیٹے بھی شامل ہیں۔