بلوچ لبریشن آرمی کے آفیشل چینل ہکّل نے فدائی فضل گل زہری عرف شاویز اور فدائی جنید زہری عرف کامی کے ویڈیو پیغامات جاری کردیئے۔ بی ایل اے – مجید برگیڈ کے دونوں فدائین نے بی ایل اے کے آپریشن ھیروف کے تحت 25-26 اگست کو بیلہ میں پاکستانی فوج کے مرکزی ہیڈکوارٹرز نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ نشانہ بنایا تھا۔
بارہ منٹ پر مشتمل ویڈیو کا آغاز دونوں فدائین کے مختلف لمحوں کے تصاویر سے ہوتی ہے جبکہ اگلے منظر میں فدائی فضل گل زہری کو انقلابی نغمہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔
ویڈیو پیغامات چار حصوں پر مشتمل ہے جن میں فدائی فضل گل زہری، فدائی جنید زہری کے پیغامات اور بعدازاں دونوں ساتھیوں کا بلوچ نوجوانوں و خاص کر اپنے علاقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے نام پیغام اور آخر میں فضل گل زہری کے ‘بلوچ قومی تحریک’ میں شمولیت کے حوالے سے گفتگو شامل ہیں۔
فدائی فضل گل زہری اپنے پیغام میں کہتا ہے کہ سب سے پہلے میں اپنے وطن بلوچستان کیلئے قربان ہونے والے تمام ساتھیوں کو سلام پیش کرتا ہوں، میں نے اس فدائی عمل کا فیصلہ مکمل ہوش و حواس میں کیا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ ہمارے اس جہد آزادی کے راہ پر چلنے کی وجوہات وہی بنیادی وجوہات میں ہیں جیسے کہ وطن کی بدحالی، ماں بہنوں کی چیخ و پکار، غیر کا اس وطن پر قبضہ اور ہماری شناخت کو ختم کرنا شامل ہے ان وجوہات کے باعث میں نے فدائی بننے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ جو ساتھی فدائی بنے یا کسی اور شکل میں شہید ہوئے یا وہ نوجوان جو سالوں سے دشمن کے زندانوں میں تشدد سہہ رہے ہیں یا وہ ساتھی جو پہاڑوں میں تکالیف برداشت کرتے ہوئے، اپنا بدن پسینے سے دھو رہے ہیں ان سے کیئے گئے قول کو پورا کرنے کیلئے اور ان کیساتھ ہم قدم ہونے اور ان کے کاروان میں شامل ہونے کیلئے میں نے یہ فیصلہ اہم سمجھا اور مجید برگیڈ کا حصہ بنا۔
وہ مزید کہتا ہے کہ وہ پہلے فدائین ساتھی جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنا لہو مستقبل کیلئے بہایا ان کے جذبے نے مجھے یہ حوصلہ بخشا کہ میں ان کے کاروان کا حصہ بنوں۔ آج اُن ساتھیوں کے قربانیوں کے بدولت ایک بد ذات دشمن اپنی شکست دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں چُرا رہا ہے اور وہ یہ سمجھ چکا ہے کہ ان سرمچاروں کے قدم روکنا میرے بس میں نہیں۔
فضل گل زہری کہتا ہے کہ ہمیں امید اور یقین ہے کہ ہمارے بعد ہماری یہ بندوق ہمارے ساتھی اٹھائیں گے اور ہمارے بعد اس کاروان میں ہزاروں ساتھی شامل ہوں گے اور دشمن اپنے جن جگہوں کو محفوظ سمجھتا ہے ادھر بھی اس کو غیرمحفوظ کریں گے۔ دشمن کو اس سرزمین سے نکالیں گے اور اپنے مستقبل کو آزاد کرنے کیلئے اپنا حصہ اس جہد میں ڈالیں گے۔
وہ مزید کہتا ہے کہ میں ان نوجوانوں کو کہنا چاہتا ہوں جو میر معتبروں کے پیچھے ہیں، ان سے خود کو الگ کریں۔
فدائی جنید زہری عرف کامی اپنے پیغام کہتا ہے کہ السلام وعلیکم میری قوم، سلام ان شہیدوں کو جنہوں نے خود کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس وطن کیلئے قربان کیا، ہمیں وہ حوصلہ دیا کہ ہم یہاں تک پہنچے اور فدائی کا فیصلہ لیں میرا یہ فیصلہ ایک فکری اور شعوری فیصلہ ہے۔
وہ کہتا ہے کہ باتیں تو بہت ہوئے ہیں، قربان ہونے والے شہید ساتھیوں نے اس قوم کیلئے بہت سے پیغامات چھوڑے ہیں، تو میری باتیں بھی وہی ہیں۔ تمام صورتحال ہمارے قوم کے سامنے عیاں ہے کہ کس طرح دشمن پنجابی اور اس کے ہمراہ سی ٹی ڈی، آئی ایس آئی کس طرح ہمارے بلوچ بھائیوں، نوجوانوں کو ختم کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں تو اس ظلم، بربریت و جبر کو ختم کرنے کیلئے ہم نکلے ہیں اور اس مقام پر پہنچے ہیں کہ فدائی کا فیصلہ لیا ہے۔
وہ مزید کہتا ہے کہ میں پاکستان اور اس کے اداروں کو یہی کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم ہماری ماں بہنوں کیساتھ کررہے ہو، جس طرح تم ان کی چادریں کھینچ رہے ہو تو اس کیخلاف ہم اٹھے ہیں اور اس مقام پر پہنچے ہیں۔ تمہاری کوئی جگہ (تمہارے لیے) محفوظ نہیں، تم جہاں خود کو محفوظ سمجھتے ہو ہم وہاں گھس کر تم سے اپنی ماں بہنوں کا بدلہ لیں گے۔
فدائی جنید کا مزید کہنا ہے کہ جس طرح تم سڑکوں پر ہماری ماں بہنوں کی چادریں کھینچ رہے ہو، ہمارے والد و بھائیوں کو لاپتہ کررہے ہو تو یہ نہیں سمجھنا کہ بلوچ و بلوچ کی نسل تمہیں بخش دے گی، ان کے وارث ہم پہاڑوں پر بیٹھے بلوچ جہدکار ہیں، ان کے وارث ہیں، وہ آئیں گے اپنا بدلہ لیں گے۔
وہ کہتا ہے کہ میں زیادہ بات نہیں کروں گا کیونکہ آج وہ وقت نہیں کہ اپنے لوگوں کو باتوں، شور شرابے سے بیدار کریں اب ہم اپنے عمل سے، اپنی قربانی سے قوم کو دکھا دیں کہ قوم کی حفاظت صرف سیاست اور بحث مباحث سے نہیں ہوسکتی بلکہ اپنا خون اور قربانی دینا ہوگا۔ اس کے بعد ہمارے قوم کی بدحالی ختم ہوگی اور اپنے منزل آزادی تک پہنچیں گے۔
بلوچ جہد کاروں کو مخاطب کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ میں ان بلوچ جہدکاروں سے مخاطب ہوں جو اس تحریک، اس جدوجہد کو آگے لیجارہے ہیں میرے ساتھیوں ہمارے بعد یہ جہد، یہ تحریک آپ کی امانت ہے۔ آپ اپنی مخلصی، ایمانداری سے اس جہد کو آگے بڑھائیں۔ اپنے لوگوں سے ملیں، ان کو سمجھائیں اور بہت ہی محبت کیساتھ اپنے قوم کے لوگوں سے پیش آئیں کیونکہ پنجابی نے ہم بلوچوں کو ایک دوسرے سے بہت دور کردیا ہے ان فاصلوں کو ختم کرنے کیلئے اپنے لوگوں کیساتھ بیٹھیں، ان کیساتھ پیار سے مل کر انہیں سمجھائیں تاکہ وہ جہد سے قریب تر اور اپنے دشمن سے دور ہوجائیں، انشاء اللہ ہم آزادی کو حاصل کریں گے۔
ویڈیو کے تیسرے حصوں دونوں فدائی مشترکہ طور پر بلوچ نوجوانوں اور بلخصوص اپنے علاقے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔ ویڈیو میں فضل گل زہری پیغام میں کہتا ہے کہ میں شہر کے ان ساتھیوں سے کہنا چاہتا ہوں، جن سے ہماری دوستی تھی، اٹھنا بیٹھنا تھا، فٹ بال کھیلنے جیسے مشاغل تھے تو آپ کی دوستی ادھر تک ہی محدود نہ ہو آج ہم اس مقام پر پہنچے تو آپ کو یہاں تک آنا پڑے گا کیونکہ سنگتی (دوستی) کا ایسا احساس ہے کہ ایک دوست جہد اور پھر مجید برگیڈ کا حصہ بنا ہے تو مجھے امید ہے میری شہادت کے بعد میرے وہ دوست جو پکنک، فٹ بال کے ساتھی یا کلاس فیلوز تھے وہ آکر اس جہد کا حصہ بنیں، اس جہد کو اپنا سمجھیں، یہ سب کی جنگ ہے، یہ حق اور بقاء کی جنگ ہے، ہمیں امید ہے انشاء اللہ اس میں فتح ہماری ہے۔
وہ کہتا ہے کہ دوستی کا اگر احساس دیکھنا ہے تو، کامران جان (فدائی جنید) میرا کلاس فیلو رہا، اس جہد اور مر مٹنے تک میرے ساتھ ہے اگر دوستی کرنی ہے تو اس طرح کی دوستی کریں کہ موت تک ایک اچھے مقصد تک جائیں خود کو کسی اور جگہ ضائع کرنے سے میرے خیال اس جہد کا حصہ بنیں۔
ویڈیو کے چوتھے حصے میں فدائی فضل گل زہری اپنے ‘بلوچ جہد آزادی’ کی تحریک میں شامل ہونے کے حوالے سے گفتگو کرتا ہے جہاں ان سے ایک ساتھی پوچھتا ہے کہ کامریڈ کہاں جارہے ہو؟ اس پر فضل گل زہری جواب دیتا ہے کہ قربان، مشن بس تیار ہے، ہم جارہے ہیں آنے والی نسل و مستقبل کیلئے خود کو قربان کررہے ہیں اور ہمیں امید اور یقین ہے کہ ہمارے بعد ہمارے ساتھی ہمارے اس بندوق کو اٹھائیں گے کئی ساتھی آکر اس بندوق کو اٹھائیں گے اور دشمن کو اسکے کینٹوں کے اندر غیرمحفوظ کریں گے اور اسے ہمارے وطن سے نکال باہر کریں گے۔ دشمن بھی اب یہ نہ سمجھے کہ میں (اپنے کینٹ) میں محفوظ ہوں تم (دشمن) اب ہمیں پہاڑوں میں نہیں ڈھونڈنا، اب تم انتظار کرو ہم خود وہاں (تمہیں مارنے) آئیں گے جن جگہوں کو تم خود کیلئے محفوظ سمجھتے ہو، الحمداللہ وہاں ساتھی پہنچے ہیں تمہیں ضربیں لگائی ہیں۔
ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ قوم کیلئے کیا پیغام ہے؟
جواب میں فضل گل زہری کہتا ہے کہ قوم آج سب چیزوں کو سمجھ رہی ہے، ہر علاقے سے نوجوان شہید ہوئے ہیں وہ ان کے سامنے ہیں قوم کو بالکل نہیں کہیں گے آکر شامل ہوجائیں بلکہ یہ سب پر حق و فرض ہے جو اپنا فرض ادا کریں، اگر کوئی آج ادا نہیں کرے گا جب پاکستان بنگال والی قصوں کا آغاز کرے گا، تو اسے مجبوراً ہتھیار اٹھانا پڑے گا تو جو بہتر سمجھیں، کہ آج ہتھیار اٹھائیں، یا کل اٹھائیں یا پھر جب بنگال والی حالت ہو پھرُاٹھائیں۔ ایک تو بنگال والی حالت ہوسکتی ہے کیونکہ وہ بنگال تھا اور یہ بلوچ ہے، بلوچ انشاء اللہ اُس حد تک جانے کیلئے نہیں چھوڑے گا۔
سوال کیا جاتا ہے کہ آپ جہد کا حصہ بنیں اور مجید برگیڈ کا بھی حصہ بنیں اور اپنا قومی فرض ادا کرنے کیلئے جارہے ہو تو اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ کس طرح جہد کا حصہ بنیں؟
فضل گل زہری اس کے جواب میں کہتا ہے کہ قربان میں سب شہداء کے نام پر، شہید شاویز اور شہید آفتاب جان جب قربان ہوئے تو ہماری سوچ و فکر کو جہد کی طرف مائل کیا۔ اس کے بعد ہم نے بہت کوشش کی جہد کا حصہ بننے کی لیکن تنظیموں کے اصول و ضوابط بھی سخت ہیں تو ہم کافی وقت تک ساتھیوں تک پہنچ نہیں سکے۔
وہ بتاتا کہ ہے کہ بعدازاں جب سائیں جان (فدائی حافظ زیشان زہری) جب پہاڑوں کی جانب نکلا تو ہمارے گھر کا ہی تھا اس کے بعد ہم ان سے رابطے میں رہے، ان کے توسط سے آج ہم یہاں پہنچے ہیں۔ میں ان (زیشان زہری) پر قربان جاوں، جس نے مجھے اندھیرے سے نکال کر ایک اچھے، روشن راستے پر گامزن کیا آج وہ مجید برگیڈ کا حصہ بن کر قربان ہوا، میں نے اس کا بندوق تھاما اور مجھے یقین ہے کہ میرے بعد میرے بندوق کو بھی ساتھی تھامیں گے اور مجید برگیڈ کا حصہ بنیں گے۔