بلوچستان میں صحت کا شعبہ تباہی کے دہانے پر ہے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس بلوچستان

62

گرینڈ ہیلتھ الائنس بلوچستان نے کہا ہے کہ بلوچستان بھر میں 35 ہزار کے قریب ڈاکٹرز نرس اور دیگر کمپیوٹر اولڈرز اتھوم ڈگریاں لے کر بے روزگار پھر رہے ہیں۔

‏کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو میں گرینڈ ہیلتھ الائنس بلوچستان کے چیئرمین و دیگر رہنماؤں کا کہنا تھا آج کا ہمارا یہ پریس کانفرنس گرینڈ ہیلتھ الائنس بلوچستان کے فورم سے ہیں جی ایچ اے بی یہ کے مکمہ صحت کے تمام ارگنائزیشن یونینز کا اتحاد ہے جی ایچ اے بی کے پلیٹ فارم سے آج ہم آپ صافی حضرات کے پاس آئے ہیں تاکہ آپ ہماری باتیں ہماری درد بھری داستان ان ایوانوں میں بیٹھے اقتدار پر براجمان شعوری طور پر عوام کے لیے ظلم کے فیصلے کرنے والوں کو پہنچا دے ۔

‏انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں صحت کا مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑا تو تھا لیکن پھر بھی چند غریبوں اور مظلوموں کا علاج ہو رہا تھا لیکن ایوانوں میں بیٹھے فیصلہ سازوں نے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے نجکاری کے ذریعے ٹھیکے داروں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اسی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں تمام بھرتیوں کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

‏انکا کہنا تھا پرائیویٹائزیشن اچھا عمل ہوتا تو اس وقت سندھ اور پنجاب کے تمام ہسپتال پرائیویٹ ہو چکے ہوتے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے طرز پر چلائے جاتے پرائیویٹائزیشن اچھا عمل ہوتا تو پروفیسر ادیب رضوی لوگوں کے آگے جولی پیھلا کے پیسے اکٹھا نہ کر رہا ہوتا تاکہ لوگوں کو مفت علاج کی سہولت میں میسر کروا سکے پرائیویٹائزیشن اچھا عمل ہوتا تو پیپلز پارٹی این ائی سی وی ڈی کراچی کے شاخ سکھر لاڑکانہ اور دیگر شہروں میں تعمیر نہ کراتا پرائیویٹائزیشن اچھا عمل ہوتا تو پیپلز پارٹی گمبٹ انسٹیٹیوٹ نہ بناتی جہاں سندھ کی عوام کا فری علاج ہو رہا ہے ۔

‏صحافیوں سے گفتگو میں گرینڈ ہیلتھ الائنس بلوچستان رہنماؤں کا کہنا تھا پیپلز پارٹی سندھ کے لیے مفتی علاج اور لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے اور بلوچستان کے عوام کے لیے مفت علاج کے دروازے بند کرنا چاہتی ہے اور بلوچستان کے لوگوں سے مستقل روزگار کے مواقع چھینا چاہتی ہے پیپلز پارٹی سندھ کے اسپتالوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے اور بلوچستان کے ہسپتالوں کو منافہ خور ٹیکے داروں کے حوالے کر کے غریبوں کا خون چوسنا چاہتی ہے اور لوگوں سے روزگار کے مواقع چین کر ان کو دربدر کی ٹوکری کانے پر مجبور کر رہی ہے اور صوبہ بھر میں 35 ہزار کے قریب ڈاکٹرز نر سے اور دیگر کمپیوٹر اولڈرز اتھوم ڈگریاں لے کر بے روزگار پھر رہے ہیں ۔

‏انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے اس عمل سے دو باتیں سامنے آتی ہیں یا تو بلوچستان کے عوام انسان نہیں ہے اور پیپلز پارٹی کا حصہ نہیں ہے سندھ کی عوام کے لیے خوشحالی روزگار اور مفت علاج کی پالیسی اور بلوچستان کے عوام کے لیے بے روزگاری ظلم اور بربریت کے فیصلے دوسری صورت یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور بلوچستان میں حکومت کوئی اور قوت چلا رہی ہے اس کا جواب پیپلز پارٹی کی کیا قیادت کو بلوچستان کے عوام کو دینا پڑے گا

‏صحافیوں کو بریفنگ کے دؤران رہنماؤں کا کہن اتھا پرائیویٹائزیشن اچھا عمل ہوتا تو پی پی ایچ ائی کو کمپنی کے طرز پہ چلانے والے ذرا ہمیں جواب دے کیا بی ایچ یوز اس وقت بلوچستان میں لندن اور پیرس کے ہسپتالوں کا منظر پیش کر رہی ہیں یہ ہمارا نہیں ہیں؟
‏پچھلے سات سالوں سے تین نئے میڈیکل کالجز کو ایڈاک اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے اگر یہ نظام اور طریقہ کار اتنا دلفریب اور اچھا ہوتا تو اج وہاں کام کرنے والے ڈاکٹر اور اساتذہ اپنی تنخواہوں کے لیے روڈوں پر احتجاج نہ کر رہے ہوتے اور یہ تین نئے میڈیکل کالجز کا شمار ملک کے سب سے بہترین میڈیکل کالجز میں وہ تھا لیکن ایسا نہیں ہے ۔

‏انہوں نے کہا بلوچستان کی ترقی کے دعوے کی حقیقت اب اس سطح پہ پہنچ چکی ہے کہ اس ائندہ سے نکلنے والے سونے چاندی اور تانبے کے ذریعے امدن سے ایوانوں میں بیٹھے لوگ اپنا علاج بار کرواتے ہیں اور ان کے بچے بیرون ممالک میں رہائش پذیر ہے لیکن بلوچستان کے لوگوں سے مفت علاج کا ٹوٹا پھوٹا نظام بھی چینا جا رہا ہے اور بلوچستان کے لوگوں کے لیے مستقل ملازمت کے دروازے بھی بند کرنے کے درپے ہیں ۔

‏ریکوڈک کے مالک غربت میں زندگی گزاریں ان سے مفت علاج کی سہولت بھی چھینی جائے بلوچ اور پشتون کے لیے مستقل روزگار کے مواقع بھی بند کر دیے جائیں کرومائلٹ اور کوئلہ کے ٹیکس سے ایوانوں میں بیٹھے لوگ اپنی اشیاء پوری کریں لیکن بلوچستان کے عوام کے لیے بے روزگاری اور درپر ہی مہنگائی کے فیصلے کرے بلوچستان کے لوگوں کو روزگار کا حق نہیں اور مفت علاج کا حق بھی چھینا جا رہا ہے یہ ظلم اور بربریت کسی صورت قابل قبول نہیں یہ ہے بلوچستان کے وہ ترقی جس کے گن گائے جاتے ہیں

‏انکا کہنا تھا گوادر کے ماتھے کا جومر وہی لوگ ہیں جن کے بچے بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ اپنا علاج باہر ملک جا کے کرواتے ہیں لیکن بلوچستان کے عوام جو اس گوادر کے اصل مالک ہیں ان کے لیے مفت علاج کے دروازے تک بند کر دیے جا رہے ہیں اور یہاں لوگوں سے مستقل ملازمت کے مواقع چیھنے جا رہے ہیں-

‏انہوں نے کہا بلوچستان میں پیپلز پارٹی ترقی پرائیویٹائزیشن کانٹریکٹ ڈاک ظلم اور بربریت سے لانا چاہتی ہے اور اپنے لوگوں کے لیے مستقل ملازمت مفت علاج اور خوشحالی کی رائے کھولنا چاہتی ہے یہ دورا معیار اب مزید چلنے نہیں دیں گے حکومت وقت کو واضح پیغام دینا چاہتا ہے کہ اپنا فیصلہ درست کرے ایلتھ یا ایجوکیشن پرائیوٹائزیشن کا خیال اپنے دل سے نکال دے ورنہ اس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گے ایڈاک کانٹریکٹ ملازمتوں کو اکثر مسترد کرتے ہیں اسپتالوں کی اعلی اظہار یہ ہے کہ پچھلے چھ مہینوں سے اسپتالوں میں ایک پیناڈال کی گولی تک میسر نہیں اور دعوے ترقی کی کرتے ہیں بلوچستان کے دو بڑے ٹیچنگ اسپتال بی ایم سی اور سول جہاں آج اس جدید دور میں ائی سی یو تک نہیں ہے-

‏رہنماؤں نے مزید کہا کہ باتیں بلوچستان کی ترقی کی کرتے ہیں جو کہ سوشل میڈیا کا ایک بیانیہ تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے
‏3 ہزار ڈاکٹر ڈگریا ہاتھوں میں لیے روڈوں پر دربدر گھوم رہے ہیں اور بلوچستان سوشل میڈیا پہ ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے
‏5 ہزار بچے الائڈ ہیلتھ سائنسز کے ڈپلومات میں لیے درپدر کی ٹوکری کا رہے ہیں اور بلوچستان ترقی کے منازل طے کر رہا ہے

‏انکا آخر میں کہنا تھا جی ایچ اے بی کے پلیٹ فارم سے حکومت بلوچستان کو چارٹر اف ڈیمانڈ پیش کریں گے اور 10 دن کا الٹیمیٹم دیا جائے گا مطالبات پورا نہ ہوئے تو پورے بلوچستان میں احتجاجی تحریک کا اغاز کریں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل اسی وقت طے کریں گے-