بلوچستان محض ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ امیدوں اور زندگیوں کا قبرستان ہے ، جہاں انسانیت کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے پانچویں بین الاقوامی بلوچستان کانفرنس میں کیا گیا۔
بی این ایم کے زیر اہتمام ’ بی این ایم ستمبر 2024 جنیوا سرگرمیوں ‘ کے سلسلے میں جنیوا میں 16 ستمبر سے لے کر 18 ستمبر تک تین روزہ پروگرامات کیے جا رہے ہیں۔ پارٹی عالمی سطح پر بلوچ تحریک کے لیے حمایت ، توجہ اور مدد حاصل کرنے کے لیے تسلسل کے ساتھ ’ بین الاقوامی بلوچستان کانفرنس ‘ کا انعقاد کرتی ہے ، اس سلسلے کی پانچویں کانفرنس کو بی این ایم کی جنیوا سرگرمیوں میں شامل کیا گیا۔ کانفرنس میں بڑی تعداد میں دنیا کے مختلف اقوام کے لوگوں اور بی این ایم کے کارکنان نے شرکت کی۔کانفرنس کا موضوع ’ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بلوچستان میں چین پاکستان اشتراک سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور استحصال کو اجاگر کرنا ‘ تھا۔ جبکہ بلوچستان کی جدوجہد آزادی اور وہاں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کانفرنس کے اہم موضوعات تھے۔
پروگرام کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ، پہلے حصے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں شعور جاگر کرنے والے نوجوان یوسف بلوچ، کنگز کالج لندن میں پی ایچ ڈی کے امیدوار اسکالر جعفر مرز ا ، جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے سابق ترجمان حبیب الرحمان، پشتون تحفظ موومنٹ ( پی ٹی ایم) کے یورپی کمیٹی کے شعبہ بین الاقوامی سفارت کاری اور فارن افیئرز کے سربراہ اور ورلڈ سندھی کانگریس کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر لکھو لوہانہ نے خطاب کیا ۔
اس نشست میں مقررین نے کہا بلوچستان اور بلوچ قوم کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ریاستی جبر اور تشدد کے باوجود بلوچ قوم مزاحمت کر رہی ہے اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھا رہی ہے۔ بلوچستان جبر کے سامنے خاموش نہیں ہے۔ بلوچستان کی جدوجہد مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ابھر کر توجہ حاصل کر رہی ہے۔ گوکہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ بلوچ قومی تحریک میں ابھار آیا ہے بلکہ یہ بلوچ قومی تحریک کا پانچواں ابھار ہے مگر آج کی تحریک کی نوعیت ماضی سے یکسر مختلف ہے۔ تحریک عوامی شراکت اور قیادت کے حوالے سے متنوع ہے۔ ہر جنس اور عمر کے لوگ بلوچ قومی تحریک میں شامل ہیں اور یہ ہمہ جہت ہے۔
کانفرنس کے دوسرے حصے میں مقررین نے آنلائن حصہ لیا ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماء افراسیاب خٹک، لیبر پارٹی کی طرف سے برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر جان مکڈونل ، لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹس سائنسز میں سوشیالوجی کی ایسوسیئٹ پروفیسر نداکرمانی ، انسانی حقوق کی معروف وکیل ایمان مزاری اور انسانی حقوق کی مدافع ڈاکٹر جینیفر فلپا اگرٹ نے اس نشست میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مقررین نے کہا بلوچستان میں رابطے کے ذرائع محدود ہیں۔ پاکستان کے مرکزی میڈیا میں بلوچستان کے حالات پر بات نہیں کی جاتی ، خطے کی بیشتر آبادی کو انٹرنیٹ تک بھی رسائی نہیں جس سے درست صورتحال کے بارے میں معلوم نہیں ہوپاتا۔بلوچستان کے بارے میں محقیقن شال اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں روابط کے ذریعے محدود معلومات حاصل کر پاتے ہیں تاکہ وہاں کے حالات معلوم کرسکیں۔بلوچستان کا ایک بڑا مسئلہ جبری گمشدگیاں ہیں اور پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئی واضح قانون نہیں۔ پاکستان کے پارلیمنٹ کے ممبران نے ایک قانونی مسودہ اسمبلی میں پیش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ قانونی مسودہ بھی جبری لاپتہ ہوگیا۔
انھوں نے کہا اگر حکومت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ محض 8436 افراد لاپتہ ہوچکے ہیں تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ تعداد اس سے کئی زیادہ ہیں کیونکہ ریاست کو اس میں دلچسپی نہیں کہ وہ اپنے نمائندگان کے جرائم پر ان کا محاسبہ کرئے۔یہ تعداد محض چند لوگوں کی ہے جن کے لواحقین کو انکوائری کمیشن تک رسائی ملی ، جبکہ ریاست کی طرف سے اس طرح کی شکایت پر لواحقین پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ خاموش رہیں۔صرف بلوچستان میں لوگ جبری گمشدگی کا شکار نہیں بلکہ سندھ ، پنجاب اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے بھی لوگ جبری لاپتہ کیے جا رہے ہیں البتہ بلوچستان اور پختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
تیسرے اور آخری حصے میں بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ ، نامور تاریخ دان ڈاکٹر نصیر دشتی ، اطالوی صحافی فرانسزکا مرینو اور انسانی حقوق کی مدافع انھیلینا نے خطاب کیا۔
مقررین نے کہا بلوچ قوم کو ایک عجیب و غریب دشمن کا سامنا ہے، یہ عجیب و غریب ہے کیونکہ تاریخ کا اکلوتا ملک ہے جو بظاہر برطانوی کالونی سے آزاد ہوا لیکن درحقیقت پاکستان کا خیال اس زمین سے پیدا نہیں ہوا جہاں آج پاکستان واقع ہے بلکہ یہ خیال لندن میں پیدا ہوا۔ یہ منفرد ریاست ہے کیونکہ اس کی قومی زبان پاکستانی بندوست میں بسنے والے کسی بھی ایک شخص کی زبان نہیں بلکہ یہ شمالی ہندوستان سے لائی گئی ہے۔ اور یہ وہ واحد ملک ہے جس کے بارے میں پاکستانی اسکالرز دعوی کرتے ہیں کہ یہ ’ اللہ‘ کی طرف سے تحفے میں دیا گیا ہے ۔
انھوں نے کہا بلوچستان میں جو غیر سیاسی کارکنان استحصال ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم ہیں ان کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ہیں۔ کیونکہ یہ ہر فوجی اسٹبلشمنٹ کی نفسیات ہے ، اسے عوامی آگاہی سے ڈر لگتا ہے۔ فورتھ شیڈول ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے کیونکہ جب آپ کو فورتھ شیڈول میں ڈالا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک دہشت گرد ، غیر اعلانیہ دہشت گرد ، غیر سزا یافتہ دہشت گرد ہیں۔ اور فورتھ شیڈول کے تحتت ریاست آپ کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتی ہے اور اگر وہ چاہیے تو آپ سے ہر ہفتے یا ہر مہینے قریبی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنے کو کہہ سکتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کی نقل و حرکت کو محدود کر ر ہے ہیں اور انھیں دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔
اس کانفرنس میں موڈیریٹرز کی ذمہ داریاں شلی بلوچ اور ایمان بلوچ نے انجام دیں۔ کانفرنس کے آخر میں بی این ایم کے فارن ڈیپارٹمنٹ کے کوارڈینیٹر فہیم بلوچ نے شرکاء اور مقررین کا شکریہ ادا کیا۔