بلوچستان: سیاسی کارکنان نے حکومتی فورتھ شیڈول کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا

192

حکومت سیاسی کارکنان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال کر سیاسی عمل پر قدغن لگانے کی کوشش کررہی ہے۔ سائلین کا مؤقف

حکومت بلوچستان کی جانب سے فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے افراد نے بلوچستان ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔ چیف جسٹس ہاشم کاکڑ کے بینچ میں سماعت متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے، کیس کی پیروی انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل جلیلہ حیدر کررہی ہے۔

کامریڈ عبدالغفار قمبرانی اور انکے بھائی عبدالستار قمبرانی کی طرف سے ایک آئینی درخواست بلوچستان ہائی کورٹ میں دائر کردی گئی ہے جن کا نام بشمول 130 دیگر افراد کے فقط کوئٹہ سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے چوتھے شیڈول میں شامل کیے گئے ہیں۔

سائلین کے مطابق حکام نے غلط غیر قانونی اور بدنیتی کے بنیاد پر ان کا تعلق بلوچ لبریشن آرمی (BLA) سے جوڑ دیا ہے۔

چیف جسٹس ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس عامر رانا سائلین کے دلائل سنے، آئینی درخواست کو قبول کرتے ہوئے تمام متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔

اس دوران وکیل جلیلہ حیدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا عام ایکٹوسٹ اور جمہوری دائرہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے اب ریاست ان کو کالعدم تنظیموں سے جوڑ کر انکی پرامن جدوجہد کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔

وکیل جلیلہ حیدر کا مزید کہنا تھا حکومت اس طرح کے اقدامات سے کوئٹہ سمیت بلوچستان میں موجود کارکنان پر ہر طرح کے دروازے بند کرنا چاہتی ہے، عدالت نے اگلی پیشی کیلئے متعلقہ حکام کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

واضح رہے کہ صوبائی حکومت کے احکامات پر بلوچستان بھر سے چار ہزار کے قریب سیاسی کارکنان طلباء و دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام ای سی ایل سمیت فورتھ شیڈول میں شامل کیئے گئے ہیں جبکہ اس دوران ان افراد کو کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ کے دفتر میں پیش ہونے سمیت ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کی گئی ہے-

رواں ماہ انسانی حقوق کے کارکن اور جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ کو کراچی ائیرپورٹ پر ایف آئی اے نے روکتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ صوبائی حکومت نے ان کے سفر پر پابندی عائد کردی ہے۔

سمی دین بلوچ نے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے اور سفری پابندی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست کردی ہے جس کی سماعت اگلے ہفتے ہوگی۔