بلوچستان، پاکستانی فورسز اختیارات میں اضافہ: نئے حراستی کیمپ قائم کرنے کا اعلان

1070

حراستی مراکز میں ہتھیار پھینکنے والوں سمیت مقامی لوگوں کے مسلح اسکواڈز تشکیل دینے کے لئے بھی استعمال میں لئے جائیں گے۔

پاکستانی وفاقی حکومت نے حال ہی میں بلوچستان میں سیکورٹی کی صورتحال کے حوالے سے اہم فیصلے جاری کیے ہیں ان فیصلوں میں پاکستانی فورسز اور دیگر سیکورٹی ادارے کسی بھی شہری کو شک کی بنیاد پر حراست میں لینے اور تین ماہ بغیر مقدمات کے قید میں رکھ سکتے ہیں۔

حکومت اور فورسز حکام نے بلوچستان میں مزید ایسے نئے حراستی مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں مشتبہ افراد کو کم از کم تین ماہ تک بغیر کسی الزامات یا عدالتی احکامات کے قید رکھا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس ٹریبون کے مطابق صوبائی حکومت کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ 25 اور 26 اگست کے بلوچ لبریشن آرمی کے حملوں کے بعد، وفاقی حکام نے اہم اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا اور جوابی اقدامات پر حکمت عملی بنائی ہے۔

ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ فوج سمیت سیکیورٹی فورسز کو 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد خیبر پختونخوا میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دیئے گئے خصوصی اختیارات جیسے ہی خصوصی اختیارات بلوچستان میں پاکستانی فورسز کو دیئے جائیں گے۔

ان اختیارات کے تحت پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے کسی بھی مشتبہ شخص کو شک کی بنیاد پر بغیر کسی ایف آئی آر اور عدالتی پیشی کے تین ماہ تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق یہ نئے حراستی مراکز مبینہ طور پر خیبر پختونخوا میں قائم کیے گئے ان مراکز کے طرز بنائے گئے ہیں، جہاں آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کو رکھا گیا تھا، اب اسی طرز کے حراستی مراکز بلوچستان میں قائم کیے جائیں گے اس سے قبل ایسے مراکز شمالی اور جنوبی وزیرستان، سوات، اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں استعمال کیے جاتے تھے-

حکومتی ذرائع نے بتایا کہ ان حراستی مراکز میں صرف قیدیوں کو ہی نہیں رکھا جائے بلکہ ہتھیار پھینکنے والوں سمیت مقامی لوگوں کے مسلح اسکواڈز تشکیل دینے کے لئے بھی استعمال میں لئے جائیں گے جس طرح پشتون علاقوں میں طالبان کے خلاف امن فورس قائم کیا گیا تھا۔

اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام کا مقصد مستقبل میں تشدد کے واقعات کو روکنا ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مراکز اکثر شہریوں خاص کر سیاسی کارکنان کو بغیر کسی الزامات کے حراست میں رکھے جانے کے لیے تشکیل دیئے گئے ہیں، جس سے بلوچستان میں مزید انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں خدشات جنم لے رہے ہیں۔

بلوچستان کے انسانی حقوق اور سیاسی تنظیموں نے حکومت اقدامات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی اختیارات کے نام پر جبری گمشدگیوں کے عمل کو قانونی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں اور اسکے خلاف شدید احتجاج کی راہ اپنائیں گے۔