بعد از آپریشن ھیروف اور ہماری ذمہ داریاں – سفرخان بلوچ (آسگال)

1933

بعد از آپریشن ھیروف اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی آزادی کے لئے برسرپیکار مسلح تنظیمیں قومی جنگ کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مسلح جنگ میں مربوط جنگی حکمت عملوں سے جدت اور شدت لارہے ہیں۔

بلوچ مسلح تنظیم بلخصوص بی ایل اے اپنے جند ندر کاروائیوں  سے کمپلیکس حملے اور دیگر نئی تکنیک کے ساتھ بڑے عسکری اہداف پر حملے کررہے ہیں۔

بلوچ لبریشن آرمی  کی کاروائیوں میں حالیہ کچھ سالوں کے دورانیئے میں نئی شکل اختیار کی ہے، عسکری تنصیبات پر حملوں کے ساتھ  بلوچستان میں  بین الاقوامی سرمایہ دار و سرمایہ کاری کو بڑے پیمانہ پر نشانہ بنایا گیاہے۔

چبھیس اگست کی رات بی ایل اے نے بلوچستان بھر میں سلسلہ وار مربوط کاروائیوں کا آغاز کیا اور پھر ان کاروائیوں کو بی ایل اے کی جانب سے آپریشن ھیروف کا نام دیا گیا۔

آپریشن ھیروف کے دوران بی ایل اے فدائی یونٹ مجید برگیڈ نے بلوچستان کے ایک ایسے علاقے میں موجود پاکستانی فورسز کے کیمپ کو نشانہ بنایا ہے، جو موجودہ انسرجنسی کے دوران خاموش ترین علاقہ رہا ہے جبکہ پاکستانی قبضہ اور نام نہاد الحاق کے حوالے سے بھی اسی علاقے کئ خاصی اہمیت ہے۔

پاکستانی حکام مسلسل اظہار کرتے ہیں کہ  بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق میں جام لسبیلہ نے اہم کردار ادا کیا تھا، لیکن الحاق کے آفر کو اس وقت کے بلوچستان کے پارلیمان ایوان زیریں اور ایوان بالا نے مسترد کردیا تھا چونکہ ایوانوں نے مسترد کیا تھا تو اس طرح کسی ایک اسٹیک ہولڈر کا لیا گیا فیصلہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔

اس جبری  الحاق کے خلاف بلوچ دہائیوں سے مزاحمت کرتے آرہے ہیں، وقتا پہ وقتا بلوچ انسرجنسی نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے موجودہ شکل میں منظم ہوکر جاری ہے۔

موجودہ  انسرجنسی جسکا آغاز اکسیویں صدی کے پہلے سال میں  ہوا،  کریکر دھماکوں سے ہوکر اب جند ندروں کے شکل میں حملے جاری ہیں۔

بلوچ قومی تنظیمیں خود کو ایک مضبوط فریق کے طور پر ثابت کررہے ہیں اور اس خطے میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت میں ان کا شمار ہوچکا ہے۔

بلوچستان میں بلوچ مسلح تنظیموں کی رضا مندی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں، چاہے وہ پاکستان ؤ چین کے عسکری، سیاسی یا معاشی مفادات ہوں۔

پاکستان بلوچ قومی آزادی کے لئے جاری  انسرجنسی کو ختم کرنے کے لیے سارے حربے استعمال کررہا ہے  لیکن بلوچ قومی اداروں نے دو دہائیوں تک جدوجہد جاری رکھ کر ثابت کیا ہے کہ سخت مشکلات اور ریاست جبر و سفاکیت کے باجود بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد جاری رہے گی۔

پاکستانی قبضے کے ساتھ دہائیوں میں بلوچ عوام نے سیاسی پارٹیوں اور آرگنائزیشنوں سے اس قدر دھوکے کھائے ہیں کہ عام بلوچ، سیاست کو جھوٹ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ سیاست تو عبادت ہے مگر بلوچ لیڈروں کے دھوکہ و فریب بلوچ سیاست کو جھوٹ سے تشبیہ دینے کا سبب بنا، اب جہاں بلوچ سیاست سے بیزار ہیں، وہیں دوسری جانب موجودہ انسرجنسی میں بلوچ نوجوانوں نے اپنے زاتی خواہشات  کو پس پشت ڈال کر سروں کی قربانی  دے کر عوام کا بھروسہ جیت لیا ہے۔

پہلے جنگیں صرف مردوں سے منسوب کئے جاتے تھے لیکن موجودہ بلوچ انسرجنسی میں نوجوان لڑکیوں نے گھروں اور اپنے مستقبل کو چھوڑ کر بلوچوں کے سنہری مستقبل کے لئے خود کو سرزمین کی بقا کے فدا کررہے ہیں۔

موجودہ وقت میں تحریکی ضروریات کو مدنظر رکھیں تو بلوچ لیڈر شپ کے لئے مشکلات کے ساتھ ساتھ  ذمہ داریاں بھی بڑھ چکی ہیں۔ بلوچ لیڈر شپ نے بلوچ قوم کے نوجوان کو آزادی کا خواب دے کر قربانی کے فلسفے پر مائل کیا ہے۔

بلوچ مائیں بہ خوشی اپنے بچوں کو سرزمین کی خاطر قربان کرنے کے لئے تیار ہیں، ایسے وقت پر تحریک میں کوتاہی اور  کمزوری کی ہرگز گنجائش نہیں، اگر خدانخواستہ بلوچ تحریک کمزور ہوا تو بلوچ قوم ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہوگا۔

شاری، کمسن میرو اور پھول جیسی ماھو کو چھوڑ کر اس زمین کے لئے فدا ہوئیں اور ماھل اس وقت زمین کے لئے فدا ہونے کو تیار ہوئیں جب اس نے ابھی جوانی میں قدم رکھا ہی تھا، زندگی کی خوبصورتی اس کے سامنے  بانہوں کو پھیلا کر کھڑا تھا لیکن ماھل ؤ شاری جیسے ہزاروں نوجوان اسی طرح اس زمین کے لئے فدا ہونے کے لئے تیار ہیں۔

اگر مستقبل میں اگر کسی کی کوتاہی اور کمزوری کی وجہ سے تحریک مشکلات سے دوچار ہوا تو ہم شہدوں کے خاندانوں کے سامنا کرنے کے بھی لائق نہیں رہیں گے۔

بلوچ قائدین کی انتھک جہد نے تحریک کو ایسے موڑ پر لاکر کھڑا کیا ہے جہاں ہزاروں نوجوان اس راہ میں فنا ہونے کے لئے تیار ہیں،  آزادی کی راہ میں کمی اور  کوتاہی ختم ہوچکی ہے۔

تنظیم اور تحریک کو وقت سے ہم آہنگ کرکے  مضبوط کرنا ہوگا،  جس راستے کا انتخاب بلوچ قومی اداروں  نے کی ہے، اس میں جدت و شدت کو برقرار رکھنا اولین شرط ہے۔ تحریک آزادی کے وقت کے تقاضوں سے ہم  آہنگ نہ ہوا تو یہ عمل بلوچ تحریک کے لیئے نقصاندہ ہوگا۔

تحریک کی ضروریات ہماری اولین زمہ داری ہونی چاہئے اور شب و روز اپنی توانائیاں اس جَنگ آزادی کو منظم کرنے کے لئے وقف کرنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔