امریکہ نیتن یاہو پر جنگ بندی معاہدے کے لیے حقیقی دباؤ ڈالے: حماس

97

حماس نے جمعرات کےروز امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل پر غزہ جنگ بندی طے کرنے کے لیے حقیقی دباؤ ڈالے ، جبکہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ کوئی معاہدہ نہیں ہورہا ہے ۔

دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر جنگ بندی اور یرغمالوں کے تبادلے کے لیے مذاکرات کو تعطل میں ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ دوسری طرف اتوار کو اسرائیلی حکام کی جانب سے ان چھ غمالوں کی موت کے اعلان کے بعد، جن کی لاشیں غزہ کی ایک سرنگ سے بر آمد ہوئی تھیں، نیتن یاہو کو کوئی ایسا معاہدہ طے کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے جس سے باقی اسیروں کو رہا کرایا جا سکے ۔

قطر میں مقیم حماس کے مرکزی مذاکرات کار خلیل الحیا نے امریکہ پر نیتن یاہو اور ان کی حکومت پر حقیقی دباؤ ڈالنے کے لئے زور دیتے ہوئے کہا کہ “اگر امریکی انتظامیہ اور صدر بائیڈن واقعی جنگ بندی طے کرنا اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں صہیونی قبضے کے بارے میں اپنا اندھا تعصب ترک دینا چاہیے۔ ‘‘

نیتن یاہو نے امریکی ٹاک شو، فاکس اینڈ فرینڈز کو بتایا: “کوئی معاہدہ نہیں ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا بدقسمتی سے یہ قریب نہیں ہے لیکن ہم ان کو اس مقام تک لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے جہاں وہ معاہدہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم ایران کو اس بڑے محصور علاقے میں دہشت گردی کے لیے دوبارہ ترسیل سے روکیں گے۔

نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ اسرائیل کو مصر-غزہ سرحد کے ساتھ فلاڈیلفی کوریڈور پر کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے تاکہ حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکی جا سکے ۔

حماس علاقے سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس نے جمعرات کو کہا کہ نیتن یاہو کے موقف کا مقصد یہ ہے کہ کسی معاہدے کو طے ہونےسے روکا جائے ۔

فلسطینی عسکریت پسند گروپ کا کہنا ہے کہ ایک نیا معاہدہ غیر ضروری ہے کیونکہ وہ مہینوں پہلے بائیڈن کی طرف سے پیش کئے گئے جنگ بندی کے ایک خاکے پر متفق ہو گئے تھے۔

حماس نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں نئی تجاویز کی ضرورت نہیں ہے۔

گروپ نے کہا، “ہم نیتن یاہو کے جال میں پھنسنے سے خبردار کرتے ہیں جو … جو ہمارے لوگوں کے خلاف جارحیت کو طول دینے کے لیے مذاکرات کا استعمال کرتے ہیں۔”

تاہم امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ واشنگٹن کا خیال ہے کہ جنگ بندی معاہدے پر 90 فیصد اتفاق ہو چکا ہے۔

لیکن انہوں نے مزید کہا کہ “جب تک ہر چیز پر گفتگو نہیں ہو جاتی اس وقت تک کچھ بھی طے نہیں ہوتا، او اس وقت جن مسائل پر بات چیت ہورہی ہے وہ بہت، بہت ہی تفصیلیہے، اور یہ ہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب معاملات مشکل ہو جاتے ہیں۔”

مذاکرات کے ایک کلیدی ثالث قطر نے کہا ہے کہ اسرائیل کا نقطہ نظر “حقائق کو غلط ثابت کرنے اور جھوٹ کا اعادہ کر کے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش پر مبنی تھا”۔

قطر کی وزارت خارجہ نے انتباہ کیا کہ اس طرح کے اقدامات آخر کار امن کی کوششوں کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔

اسرائیل میں مظاہرے

اس ہفتے کئی شہروں میں اسرائیلی مظاہروں میں، نیتن یاہو کے ناقدین نے انھیں یرغمالوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے جنگ بندی کے کا کوئی معاہدہ طے کرنے کے لیے ضروری رعایتیں دینے سے انکار کر دیا ہے۔

گل ڈک مین نے، جو گزشتہ ماہ غزہ کی ایک سرنگ سے ملنے والے چھے یرغمالوں کی لاشوں میں سے ایک، کارمیل گیٹ کے کزن ہیں ، کہا کہ ’’ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ تمام یرغمال ہمارے پاس واپس آجائیں ۔ اور اگر رہنما کسی معاہدے پر دستخط نہیں کرنا چاہتے تو ہم ایسا کروائیں گے۔”

اے ایف پی کے ایک صحافی نے رپورٹ دی ہے کہ ڈک مین نے جمعرات کی شام تل ابیب میں ایک حکومت مخالف ریلی میں حصہ لیا تھا، جہاں مظاہرین کے ہجوم نے ایک جلوس میں علامتی تابوت اٹھا رکھے تھے۔

غزہ اور مغربی کنارے پر حملے

جمعرات کو غزہ بھر میں حملے جاری رہے ، طبی ماہرین اور امدادی کارکنوں نے علاقے کے شمال اور جنوب میں الگ الگ حملوں میں کل 12 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی۔

ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل غزہ میں اپنی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے ، وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ فوج کو مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی “مکمل طاقت” استعمال کرنی چاہیے۔

انہوں نے ان شہروں اور پناہ گزین کیمپوں کا حوالہ دیتے ہوئے، جہاں اسرائیلی فوجی آپریشن جاری ہے، کہا کہ “ان دہشت گرد تنظیموں کو جن کے مختلف نام ہیں، چاہے وہ نور الشمس، تلکرم، فارا یا جنین میں ہوں، ان کا صفایا ہونا چاہیے۔”

اسرائیلی فوج نے جمعرات کو کہا کہ اسکے طیاروں نے فارا پناہ گزین کیمپ سمیت طوباس کے علاقے میں “مسلح دہشت گردوں پر تین ٹارگٹڈ حملے کیے ہیں۔”

علاقے کی وزارت صحت نے بتایا کہ ایک کار پر حملے میں 21 سے 30 سال کی عمر کے پانچ افراد ہلاک اور دو اور زخمی ہوئے۔

عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کو الفارا کیمپ پر دھاوا بولتے دیکھا، جہاں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔

فلسطینی ہلال احمر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے طبی ماہرین کو ایک سترہ سالہ زخمی نوجوان تک پہنچنے سے روکنے کے بعد اس کی لاش تنظیم کے حوالے کر دی ۔

وزارت صحت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیل نے 28 اگست کو شروع ہونے والے اپنے حملے کے بعد سے شمالی مغربی کنارے میں کم از کم 36 فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے، جن میں بچے اور عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔

جنین میں ایک اسرائیلی فوجی مارا گیا، جہاں زیادہ تر فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔

اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، حماس کے 7 اکتوبر کو کیے گئے حملے کے نتیجے میں 1,205 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے جن میں کچھ یرغمالی بھی شامل تھے۔

حملے کے دوران فلسطینی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 251 میں سے 97 غزہ میں ہیں جن میں سے 33 اسرائیلی فوج کے مطابق ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں اب تک کم از کم 40,878 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔