اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے ہفتے کے دن غزہ میں چھ یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کے بعد انھیں زندہ واپس لانے میں ناکامی پر شہریوں سے معافی مانگی ہے جبکہ ملک بھر میں ان کی حکمت عملی کے خلاف احتجاج شدت اختیار کر چکا ہے۔ دوسری جانب حماس کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے کہ اگر جنگ بندی کا معاہدہ نہ ہو سکا تو مزید اسرائیلی یرغمالی اپنے خاندانوں تک ’کفن میں لپٹے ہوئے واپس پہنچیں گے۔‘
نتن یاہو کی جانب سے معافی کی بات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک میں احتجاج کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے اور برطانیہ نے حال ہی میں کچھ اسلحہ کی فروخت یہ کہتے ہوئے معطل کر دی ہے کہ اسے بین الاقوامی قانون کے خلاف استعمال کیے جانے کا خطرہ تھا۔
یاد رہے کہ اسرائیل کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد احتجاج کر رہے ہیں اور گذشتہ روز ملک بھر میں ہونے والی ہڑتال سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد پہلی بڑی ہڑتال تھی۔ حال ہی میں جنوبی غزہ میں چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کے بعد سے احتجاج شروع ہوئے ہیں۔
احتجاج کرنے والوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے حماس کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی راہ میں حائل ہیں۔حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ نے طویل عرصے سے نتن یاہو کی حکمت عملی کو ناپسند کیا ہے لیکن ان کا غصہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب سنیچر کو اسرائیلی فوج کو جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں زیرِ زمین سُرنگ سے چھ مغویوں کی لاشیں ملی تھیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان مغویوں کو فوجی اہلکاروں کے اس مقام پر پہنچنے سے پہلے قتل کیا گیا تھا۔
ان چھ افراد کی شناخت کارمل گاٹ، ایڈن یورشالمی، ہرش گولڈبرگ پولن، الیگزینڈر لوبانو، آلموگ ساروسی اور ماسٹر سجتاوری دانینو کے نام سے ہوئی ہے۔
ان میں تین افراد کے متعلق رپورٹ کیا گیا ہے کہ انھیں جولائی میں زیر بحث آنے والے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں چھوڑا جانا تھا۔
اسرائیل میں مظاہرین نے نتن یاہو کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’سربراہ بھی تم ہو الزام بھی تمھیں پر جائے گا۔‘
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل کے حملے کے تقریباً 11 ماہ بعد بھی 97 یرغمالی اب بھی غزہ میں قید ہیں جن میں سے 33 سے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔
حماس کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدے اور اس کے تحت 97 یرغمالیوں کی جلد از جلد رہائی مظاہرین کی پہلی ترجیح ہے۔جب یہ خبر پھیلی کہ حماس کی قید میں چھ قیدیوں کی لاشیں غزہ سے ملی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ پہلے زندہ تھے، مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے جس کے فوراً بعد ہی مزید مظاہروں اور عام ہڑتال کی کال دی گئی۔
ملک کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ہستادروت اس ہڑتال کے پیچھے ہے اور اسے اسرائیل میں اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ کی بھی حمایت حاصل ہے۔ یرغمالیوں کی خاندانوں کے فورم نے عام عوام سے اس ہڑتال میں حصہ لینے اور ’ملک کو جام کر دینے‘ کی درخواست کی جس کے نتیجے میں ملک کی کئی اہم شاہراؤں اور دفاتر میں تعطل دیکھا گیا۔
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعظم یائیر لیپڈ نے ان مظاہروں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام شہری جن کے دل یرغمالیوں کی ہلاکت کے خبر سن کر ٹوٹ گئے ہیں ان مظاہروں میں شرکت کریں۔
بنیامن نتن یاہو نے ان تمام الزامات کو رد کیا ہے کہ انھوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی کوششوں کو ناکام بنانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری حماس پر عائد کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھے گا جب تک وہ یرغمالیوں کی ہلاکت کے ذمہ داروں کو پکڑ نہیں لیتا۔
حماس کے اہلکار عزت الرشق نے یرغمالیوں کی ہلاکتوں کے لیے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے پر رضامندی سے انکار کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے لیکن براہ راست یہ نہیں بتایا کہ یرغمالیوں کی موت کیسے ہوئی۔
اسرائیل میں سڑکوں، بینکوں، سکولوں اور ہوائی اڈوں پر بڑے پیمانے پر خلل پڑنے کے بعد، اسرائیل کی لیبر کورٹ نے فیصلہ دیا کہ عام ہڑتال مقامی وقت کے مطابق 14:00 بجے ختم ہونی چاہیے، لیکن مظاہرین نے اسے شام تک جاری رکھنے کا عزم کیا۔ یہ ہڑتال اصل میں دو دن تک جاری رہنے والی تھی۔
اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزلال سموٹرچ جنھیں ان کے انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی وجہ سے جانا جاتا ہے نے اس ہڑتال کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے عدالتی فیصلہ کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلانٹ جنھوں نے متعدد بار وزیر اعظم نتن یاہو پر جنگ بندی معاہدے کے لیے بات چیت کرنے پر زور دیا ہے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے اسرائیل کی سیکورٹی کابینہ سے مطالبہ کیا کہ وہ نیتن یاہو کے مذاکراتی مطالبات کی توثیق کو واپس لے۔
انھوں نے لکھا کہ ’ان یرغمالیوں کے لیے اب بہت دیر ہو چکی ہے جنھیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہے، مگر وہ یرغمالی جو اب بھی حماس کی قید میں ہیں انھیں گھر واپس ضرور لایا جائے۔‘
سات اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سے اسرائیل میں ہونے والے سب سے بڑے ان مظاہروں کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ اس طویل متوقع جنگ بندی معاہدے کو محفوظ بنایا جا سکے۔