اسرائیلی وزیر دفاع کا مغربی کنارے کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے ‘مکمل طاقت’ کے استعمال کا مطالبہ

140

اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے بدھ کے روز کہا کہ فوج کو مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی عسکریت پسندوں پر حملہ کرنے کے لیے اپنی “مکمل طاقت” استعمال کرنی چاہیے۔ وہاں اسرائیل کےایک وسیع فوجی آپریشن میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

گیلنٹ نے اپنی وزارت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا، “دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کے پیش نظر، ہم یہودیہ اور سامریہ (مغربی کنارے کے اسرائیلی نام) سے دہشت گرد تنظیموں کو ختم کر رہے ہیں۔”

انہوں نے شہروں اور پناہ گزین کیمپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ” دہشت گرد تنظیموں کا جن کے مختلف نام ہیں، چاہے وہ نور الشمس، تلکرم، فرع یا جنین میں ہوں، صفایا کیا جانا چاہیے۔”

انکا کہنا تھا کہ ہر دہشت گرد کو ختم کیا جانا چاہیے، اور اگر وہ ہتھیار ڈالتے ہیں تو انھیں گرفتار کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

گیلنٹ نے آپریشن کا جائزہ لینے کے لیے افسران سے ملاقات کے بعد بات کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کے خلاف مہم کا موازنہ لان کی “گھاس کاٹنے” سے کیا۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہم گھاس کاٹ رہے ہیں لیکن وہ وقت آئے گا جب ہم جڑوں کو بھی اکھاڑ پھینکیں گے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔

اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ جہاں بھی ضروری ہو فضائی حملے کریں تاکہ فوجیوں کو خطرے میں ڈالنے سے بچا جا سکے۔

28 اگست سے اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے کے شہروں جنین، توباس اور تلکرم میں بیک وقت چھاپے مارے ہیں۔

املہ میں قائم فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، چھاپوں میں اب تک کم از کم 30 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں عسکریت پسند بھی شامل ہیں، 140 فلسطینی زخمی ہو ئے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ جنین گورنری میں 19، تلکرم میں 7 اور توباس میں 4 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

حالیہ دنوں میں، اسرائیلی چھاپوں کا مرکز جنین شہر اور اس کے ارد گرد کا علاقہ رہا ہے، جو کہ عسکریت پسندوں کا ایک معروف مرکزی مقام ہے۔

بدھ کے روز، جینن میں اے ایف پی کے ایک صحافی نے خالی گلیوں کو دیکھا، جہاں کے رہائشی صرف اشد ضروری اشیا خریدنے کے لیے اپنے گھروں سے نکل رہے تھے۔

بکتر بند فوجی گاڑیاں گزرنے کے ساتھ ہی سڑکوں پر کھدی ہوئی اسفالٹ کا ملبہ بکھرا ہوا تھا۔

امریکہ مغربی کنارے میں تشدد کی مخالفت کرچکا ہے اور اس نے مغربی کنارے کے بعض افراد اور اداروں پر سفر کی پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔

جینن اور اس سے ملحقہ پناہ گزین کیمپ — جہاں فوج کے بلڈوزروں نے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، طویل عرصے سے 1967 سے مغربی کنارے پر قابض اسرائیل کے خلاف لڑنے والے فلسطینی مسلح گروہوں کا گڑھ رہا ہے۔

فوج فلسطینی آبادی کے مراکز میں تواتر سے دراندازی کرتی ہے، لیکن گزشتہ ہفتے سے مغربی کنارے کے شمال میں جو کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ ایک ساتھ شاذ و نادر ہی کی جاتی ہیں۔

7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد غزہ کی پٹی میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے مغربی کنارے میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک اسرائیلی فوجیوں یا آباد کاروں نے مغربی کنارے میں کم از کم 661 فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے۔

اسرائیلی حکام کے مطابق اسی عرصے کے دوران فلسطینیوں کے حملوں میں فوجیوں اور پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 23 اسرائیلی ہلاک ہو ئے ہیں۔