قاضی؛ بلوچ مزاحمت کی امر نظم ۔ سنگر زاد

214

قاضی؛ بلوچ مزاحمت کی امر نظم

تحریر: سنگر زاد
دی بلوچستان پوسٹ

شاعر وہ ایک جنگجو ہے جو جنگ میں گولیوں کے راگ لکھتا ہے ، ایک مسلح جنگجو اگر جسمانی طور پر جنگ میں اتر چکا ہوتا تو ایک قومی شاعر اس جنگ میں تخیلاتی کردار ادا کرتا ہے جو نہ دیکھے گئے منظر کو لوگوں کو دیکھاتا ہے کہ دیکھو زمین کے نام کی گولیاں کیسے سینے میں پیوست ہوتی ہیں، شاعر ان لمحوں کی ایسی منظر کشی کرتا ہے کہ جسے قاری ایک لمحے کو میدانِ جنگ میں اتر چکا ہو۔

دنیا کی جنگوں میں کئی ایسے شعراء کا ذکر ملتا ہے کہ جنھوں نے اپنے الفاظ سے انقلاب برپا کردیا تھا جیسے برٹش کے خلاف امریکن آزادی کی تحریک میں تھامس پین کا کردار ، ہندوستان کی آزادی میں رامدھاری سنگھ اور سبرمانیہ بھارتی ، فلسطین کا محبوب شاعر محمود درویش جیسے درییش صف شاعروں کا ذکر ملتا ہے کہ جنھوں نے اپنے الفاظ و آشعار کے ذریقے جنگ میں ایندھن کا کردار ادا کیا ، تھامس پین تو باقاعدہ جنگ میں اتر کر لڑتے تھے وہ کہتے ہیں کہ جب میں بندوق ہاتھ میں پکڑے برطانوی فوج سے دوبدو لڑ رہا ہوتا تو اور مجھے محسوس ہوتا کہ میرے ساتھی ڈھیلے پڑ رہے ہیں تو میں اپنی نظمیں گا کر ان میں حوصلہ و جذبہ پیدا کرتا تھا۔

شاعر اپنے لفظوں سے تحریکوں کو وہ نمائندگی عطا کرتا ہے جِسے سادہ لوح دماغ سمجھنے لگتا ہے ، زمانہ قدیم میں شاعر کسی قوم کا “اخبار” ہوا کرتے تھے جو کسی ایک سوسائٹی میں ایک گاوں کا احوال دوسرے گاوں منتقل کرتے تھے ، جو کسی واقعہ پر مجموعی قومی سوچ کی عکاسی کرکے انہیں بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کرتے تھے اور اگر آج اکیسویں صدی کے بلوچستان کی پسماندگی ، بدحالی دیکھی جائے تو پرنٹ میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک ایک عام بلوچ کی رسائی نہیں ہے ، وہاں اشعار و نظمیں ، غزل و گیت ہی medium کا کردار ادا کرتے ہیں کسی دور خلق میں بیٹھا ایک سادہ لوح بلوچ سنگیت کی صورت قوموں کے حال سنتا ہے۔

بلوچ شاعری کے اندر داستانوں کو ایک دلچسپ مقام حاصل ہے ، گیدی داستانیں ، رندی شاعری ایک طرح سے بلوچوں کے “بلوچی ھال احوال” کا خوبصورت جز ہے جس کے اندر ایک شاعر کسی ہستی کے ، کسی جنگ کے ، کسی تناظر کے ، کسی لمحہ کا ایک ایسا خاکہ کھنچتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والے ایک لمحے کو اس تخیل میں کھو جاتے ہیں ، چاکر و گہرام سے لیکر اکبر و بالاچ پر لکھی گئی داستانیں ، دورِ حاضر میں بلوچ فدائین کے سرفروشی سے سرشار کاری ضربوں پر لکھی گئی داستانیں ، ہمیں اس واقع کا ” بلوچی اھوال ” بیان کرتی ہیں۔

بابا قاضی کی وفات کے بعد ، بلوچستان کی طرف سے انہیں شائر آشوب کہا گیا ، یعنی انقلاب کا شاعر یا شاعرِ انقلاب / انقلابِ شاعر ، یعنی ایسا شاعر جس کے الفاظ میں انقلاب کی جھلک دکھتی ہو ، ایسا شاعر جس نے اپنے لفظوں سے انقلاب برپا کیا ہوا ، بابا قاضی ایسا ایک شاعر تھا ، مگر حیف کہ وہ ہم سے بچھڑ گئے انکی وفات کے بعد بلوچستان کی ہر آنکھ اشکبار تھی ،ان سب روتی آنکھوں نے قاضی کو الوداع کہا، مگر بابا قاضی بلوچستان نے تمہارے لفظوں کو الوداع نہیں کہا ، بلوچستان نے تمہاری شاعرانہ نصیحتوں کو الوداع نہیں کہا۔

مگر ابا قاضی ! تمہیں الواداع ۔۔۔ ! اور اس یقین کہ ساتھ کہ تم اپنی تمام ادھوری غزلوں کو مکمل کرکے لوٹو گے ، تم ان خوابوں کی تکمیل کے ساتھ جنکو تمہاری شاعری نے ایک تخیل بخشہ ،وہ “وت وجہی” کے خوبصورت خواب کے اشعار کہ جن کو تم نے شاعری کے پردہ پوش الفاظوں میں بیان کیا ۔

اور پھر ایک قمبر کی جدائی والا وہ دکھ کہ تم نے زمین کے گرد جکڑی زنگ الود بیڑیوں کو کو ٹوٹتا نہ دیکھا مگر شاید ان زنجیر پر پڑی سبھی کاری ضربوں کے عینی شاہد ضرور تھے ، کہ نہیں تھے قاضی ؟

تم جیسے ہزار فرزندانِ گلزمین جس خواب کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوئے ، ان کی تعبیر پر اندھا ایمان تھا ، کہ نہ تھا ابا ؟ تمہاری شاعری تو اس ایمان پر لکھی ایک مقدس گیتا ہے۔ مگر الوداع ! اب منیر و شیر محمد کے ہمراہ اس یقین کے ساتھ لوٹنا کہ تب نہ ہی یہ زنجیر ہوگی نہ غلامی ، نہ زمین کی آشک آلود آنکھیں نہ کسی بدبخت درآمد کے بدبودار خون آلود پاوں مگر ایک جشن ہوگا جہاں تمہارے عہد کے سبھی زمین زاد بسمل لالہ منیر ، شیر محمد و غلام محمد ہوں گے، اس اسٹیج پر کریمہ بولان کے ترانے پڑھ کر جب تمہیں شاعری کی دعوت دیگی وہ شاعری جس میں فقط آزادی کے راگ ہوں گے ، تب تمہیں قمبر دیکھے گا ، ضرور دیکھے گا۔

مجھے یقین ہے کہ اب بھی لیاری کی تنگ گلیوں میں جہاں 2009 کے تنگ حالات میں بھی کبھی وطن کا نعرہ لگا تو اس چھوٹے سے مکان کی ادھ کھلی کھڑی، جہاں تم پروفیسر صبا کے نعروں کے جواب دیتے رہے اب بھی تم زمین کی خاک کے تلے وطن زادوں کے ہر نعرے کے جواب میں دشمن کو مردہ باد لکھو گےتمہاری لکھی شاعری ڈیرہ و دامان کے کچے سے لیکر بحرِ بلوچ کی نیل چادر پر زندگی بسر کرتی نسلوں کی آبیاری کرے گی۔

تم مزاحمت کی تمام غزلوں کا راگ بنوگے ، بلوچ جب محمود درویش ، سمی القاسم اور تھامس پین کی مزاحمتی شاعری سنے گا تو اسکے ادھورے بول تمہارے لفظوں سے مکمل کرے گا۔ تم بنگال کے باغی شاعر قاضی نظرالسلام کی طرح اپنے بوئے لفظوں کے بیج کی فضل تو نہ دیکھ سکے مگر۔ اب تم جنگ کی وہ طویل نظم ہو جو منوں مٹی تلے زمین کے راگ لکھے گی۔

ابا قاضی ! قوم تمہاری غیرموجودگی کے درد سہہ گی مگر تمہاری زمین ہمیشہ تمہارے مبارک لفظوں کی ترجمانی کو ترسے گی ، اس زمین پر جب بھی اجنبیوں کے قدم پڑے یا زمین زادوں نے جب بھی زمین کی سسکیوں کا حساب لیا تو مزاحمت تمہارے الفاظوں کی راہ دیکھے گی
تم اب ہر انقلابی غزل کا ردیف ہو
تم بلوچ مزاحمت کی امر نظم ہو

اے شائر آشوب مگر ۔۔۔۔۔۔ الواداع


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار ہے۔