دفاعی جنگ میں جاسوسی کی اہمیت ۔ دینار بلوچ

545

دفاعی جنگ میں جاسوسی کی اہمیت 

تحریر: دینار بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

جنگ …… ہر امن پسند قوم جنگ کو ناپسند کرتا ہے جنگ ……کسی مسٸلے کو حل کرنے کا آخری ہی آپشن ہوتا ہے ….. یعنی پھر جنگ کے بعد کے تباہیاں ہی تباہیاں یا پھر ہر طرف خوش حالی اور ایک آذاد اور ایک خومختیار مستقبل ….. جنگ کے بھی کٸی اقسام ہوتے ہیں جانے یا انجانے میں ایک زندہ شخض اپنی زندگی میں ضرور کوٸی نہ کوٸی جنگ لڑرہا ہوتا ہے لیکن اوروں کے مسلط کردہ جنگ کا آپ کو ہرحال میں حصہ بننا پڑتا ہے۔

تاریخ دنیا کی جنگی داستانوں اور کہانیوں سے بھری پڑی ہے ۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ تاریخ ان کی لکھی گٸی ہے جو قوم اپنے اوپر اوروں کی طرف سے مُسلط کردہ جنگ کو بہادری اور دلیری سے لڑچکے ہیں ۔

یہ ایک عمومی بات ہے کہ جس کا تعلق کسی بھی ملک ، ریاست یا قوم سے ہوسکتا ہے تاہم بعض خطے ایسے ہیں جو بدقسمتی سے بطورِ خاص بیرونی جارح قوتوں کا ہدف بنتے ہیں ۔ جیسے کہ بلوچستان …….تو ایسے ملک چاہے بھی کہ جنگ نہ لڑے لیکن اسے ہر حال میں یہ جنگ لڑنا پڑے گا کیوں یہ بقا کی جنگ ہے ، دفاعی جنگ ہے اور ہر حال میں لڑنا ہے ۔ جہاں سامراجی قوتیں برسرِپیکار ہو اور علاقاٸی قوتیں بھی جنگوں سے گزر رہی ہوں ، تو ایسے حالات میں کسی قوم کیلٸے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی دفاعی جنگ سے بے نیاز ہوسکے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ بلوچستان اور بلوچ قوم کیلٸے ایسے حالات میں کیا راستہ ہے؟

دفاعی جنگ کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ صلح کی تمام تر دروازے بند کیۓ جاۓ ۔ مذہب ہو یا سیکولر نظریہ صلح کی بات کرتے ہیں کیونکہ جنگ کسی بھی مہذب قوم یا فرد کی پہلی ترجیح نہیں ہوتی ۔

دفاعی جنگ کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ ایک مضبوط ہمہ جہتی دفاعی نظام کا متقاضی ہے ۔

جدید ریاست کے اجزاۓ ترکیبی میں ایک جز جغرافیہ بھی ہے ۔ جغرافیہ کے بغیر قوم تو ہوسکتی ہے مگر ریاست نہیں ۔ سیاسی حاکمیت اور آزادی کا کوٸی بھی تصور ریاست کے بغیر متشکل نہیں ہوسکتا ۔ یہی سبب ہے کہ جب بھی کوٸی قوم اپنی آزادی کے لیے اُٹھتی ہے تو اس کا سب سے پہلا ہدف ریاست کا قیام ہوتا ہے ۔ اس کرہ ارض پر بلوچ قوم صدیوں سے موجود ہے لیکن ستر سال پہلے اسے جغرافیہ سے دوبارہ محروم کردیا گیا ۔ آج بھی ایک عام بلوچ سمجھتا ہے کہ اس کی عظیم والشان تاریخ اس کی اجتماعی پہچان کے لیۓ کفایت نہیں کرتی جب تک اس قوم کو جغرافیاٸی سرحدیں بین الاقواقی سطح پر تسلیم نہیں کی جاتیں بلوچ قوم اقوامِ عالم کا حصہ شمار نہیں ہوگی ۔

جغرافیے کی اس غیر معمولی اہمیت کی پیشِ نظر مذہب ہو یا سیکولر نظریہ ، سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک قوم یا ریاست کو اپنے جغرافیاٸے کی تحفظ اور دفاع کا حق حاصل ہے ۔ ایسے مظلوم قوم یا مقبوضہ ریاست کو یہ حق بھی حاصل کہ بیرونی خطرات سے بچنے کیلیۓ ضروری دفاعی قوت کا اہتمام کریں ۔

مدینہ کی ریاست کو جب بیرونی جارحیت کا سامنا ہوا تو اللہ تعالٸ نے وحی کے ذریعے مسلمانوں کو حکم دیا اپنے دفاع کو مضبوط کرو ۔ سورہ انفال میں کہا گیا :

اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے گھوڑے ان کے مقابلے کیلیے تیار رکھو تاکہ ان کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے …….!!

بلوچ قوم جنگ کو ختم کرنے کے حامی ہیں، بلوچ جنگ نہیں چاہتے لیکن جنگ کا خاتمہ فقط جنگ ہی سے کیا جاسکتا ہے، لہذا ہتھیاروں سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہتھیار اٹھانے ہوں گے۔

جنگ لڑنے کے کٸی اقسام ہوتے ہیں لیکن بلوچ اپنے دشمن کے ساتھ روزِ اول سے (بابو سے لے کر استاد تک) گوریلا جنگ لڑ رہا ہے ۔ گوریلا ہسپانوی زبان کے لفظ Guerrilla سے ماخوز ہے جسکا ترجمہ چھاپا مار ہے ۔ گوریلا جنگ میں عام طور پر چُھپ چُھپ کر حملے کر کے زیادہ سے زیادہ دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے ۔

بقول بابا مری کے :

گوریلا سپاہی عظیم انسان ہے اس کی جان کی حفاظت ضروری ہے وہ اک سمت سے دشمن پر اس وقت حملہ کرتا ہے جب تین سمت نکلنے کیلیۓ کھلے ہو ۔

ایسی جنگ قیادت کی دُور اندیشی پر منحصر ہوتا ہے ، انہیں کب ، کہاں ، کیسے اور کس پر حملہ کرنا ہے ۔۔۔۔۔؟

گوریلا جنگ میں بلکہ کوٸی بھی جنگ ہو اس میں جاسوس کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔

جاسوسی کا علم خفیہ علوم میں سے ہے ۔ جاسوسی درست اور مصدقہ معلومات کا نام ہے ۔ جن کا حصول عمومی طور پر سخت جدوجہد اور کوشش کے بغیر ناممکن ہے ۔ ریاست و قوم کو اندرونی امَن یا بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیۓ قبل از وقت آگاہی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

جاسوسی انسانی تاریخ کا قدیم ترین پیشہ ہے ۔تہذیب انسانی کے دور میں اس کا استعمال ہوتا رہا ہے ۔ کبھی اسے دشمن سے بچاٶ کی خاطر استعمال کیا جاتارہا ہے ، اور کبھی دوسروں کو شکست دینے کی خاطر ان کا مال و املاک غضب کرنے کے لیۓ بروۓ کار لایا جاتا رہا ہے ۔ اب یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دوسروں کو شکست دینے کی خاطر اور ان کا مال و املاک غضب کرنے کے لیۓ جاسوسی کرنا یہ ایک کم ظرف دشمن کی علامت ہے ، ایسے دشمن مکار اور چالاک ہوتا ہے جسے جنگی قوانین کا بالکل بھی لحاظ نہیں ہوتا ، وہ تو ہمیشہ کم ظرفی کا مظاہرہ کرتا ہے اور خود کو بہت ہی طاقتور سمجھتا ہے ۔ ایسا دشمن میراثیوں ، بہروپوں ، صوفیا ، نجومیوں ، طبیبوں ، تاجروں ، مصوروں ، موسیکاروں اور رقاصوں کو جاسوس بھرتی کر کے کم طاقتور دشمن کے راز جان لینا چاہتے ہیں جو کہ دوران قبضہ ان کے لیۓ کار آمد ثابت ہوتے ہیں ۔ ایسا دشمن کبھی کبھی اپنے مخالف کو نقصان کو پہنچانے کے لیۓ ایک ہم درد ، ناصح اور خیرخواہ کا روپ دھار کے آتا ہے جیسے کہ آج بلوچ قوم جس کا شکار ہوچکا ہے ۔

آج دشمن اپنے ایجنٹوں کے توسط سے ہمارے اندر نفوز پیدا کرنے کے لیۓ ہر ممکنہ اقدامات کررہا ہے تاکہ اسکی رساٸی ہم تک ممکن ہو اور اپنے ہتھکنڈے آزمانے کا بھرپور موقع ملے۔ آج دشمن اپنے مزموم عزاٸم کی تکمیل کے لیۓ آسان ہدف کی تلاش میں رہتا ہے ۔

عہدِ پیغمبرانِ میں بھی جاسوسی کا نظام رہا ہے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی للہ عنہ نے 7 افراد لشکرِفارس کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کیلئے بھیجے اور انھیں حکم دیا کہ اگر ممکن ہو سکے تو اس لشکر کے ایک آدمی کو گرفتار کر کے لے آئیں!! یہ ساتوں آدمی ابھی نکلے ہی تھے کہ اچانک انھوں نے دشمن کے لشکر کو سامنے پایا جبکہ ان کا گمان یہ تھا کہ لشکر ابھی دور ہے۔

انھوں نے آپس میں مشورہ کر کے واپس پلٹنے کا فیصلہ کیا ، مگر ان میں سے ایک آدمی نے امیر لشکرسعد کی جانب سے ذمہ لگائی گئی مہم کو سرانجام دئیے بغیر واپس لوٹنے سے انکار کر دیا۔

اور یہ چھ افراد مسلمانوں کے لشکر کی جانب واپس لوٹ آئے ۔

جبکہ ہمارا یہ بطل اپنی مہم کی ادائیگی کیلئے فارسیوں کے لشکر کی جانب تنہا بڑھتا چلا گیا۔

اس لشکر کے گرد ایک چکر لگایا اور اندر داخل ہونے کیلئے پانی کے نالوں کا انتخاب کیا اور اس میں سے گزرتا ہوا فارسی لشکر کے ہر اول دستوں تک جا پہنچا جو کہ 40 ہزار لڑاکوں پر مشتمل تھے!! .پھر وہاں سے لشکر کے قلب سے گذرتا ہوا یک سفید خیمے کے سامنے جا پہنچا ، جس کے سامنے ایک بہترین گھوڑا بندھا کھڑا تھا، اس نے جان لیا کہ یہ دشمن کے سپہ سالار رستم کا خیمہ ہے!! چنانچہ یہ اپنی جگہ پر انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ رات گہری ہو گئی ، رات کا کافی حصہ گزر جانے پر یہ خیمہ کی جانب گیا ، اور تلوار کے ذریعے خیمہ کی رسیوں کو کاٹ ڈالا ، جس کی وجہ سے خیمہ رستم اور خیمہ میں موجود افراد پر گر پڑا ، گھوڑے کی رسی کاٹی اور گھوڑے پر سوار ہو کر نکل پڑے اس سے ان کا مقصد فارسیوں کی تضحیک اور ان کے دلوں میں رعب پیدا کرنا تھا گھوڑا لے کر جب فرار ہوا تو گھڑسوار دستے نے ان کا پیچھا کیا ۔

جب یہ دستہ قریب آتا تو یہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتا۔

اور جب دور ہو جاتا تو اپنی رفتار کم کر لیتا تاکہ وہ ان کے ساتھ آملیں ، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے ایک کو دھوکے سے کھینچ کرسعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے حکم کےمطابق لے جائے۔

چنانچہ 3 سواروں کے علاوہ کوئی بھی ان کا پیچھا نہ کر سکا انھوں نے ان میں سے دو کو قتل کیا اور تیسرے کو گرفتار کر لیا یہ سب کچھ تن تنہا انجام دیا اور قیدی کو پکڑا ، نیزہ اس کی پیٹھ کے ساتھ لگایا ، اور اسے اپنے آگے ہانکتے ہوئے مسلمانوں کے معسکر جا پہنچے۔ اورسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا ۔۔۔فارسی کہنے لگا : مجھے جان کی امان دو میں تم سے سچ بولوں گا۔

سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے:

تجھے امان دی جاتی ہے اور ہم وعدے کی پاسداری کرنے والی قوم ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جھوٹ مت بولنا۔۔۔

پھر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں اپنی فوج کے بارے میں بتاؤ ۔۔۔۔۔۔ فارسی انتہائی دہشناک اور ہذیان کی کیفیت میں کہنے لگا :اپنے لشکر کے بارے میں بتانے سے قبل میں تمہیں تمہارے آدمی کے بارے میں بتلاتاہوں کہنے لگا :

یہ آدمی، ہم نے اس جیسا شخص آج تک نہیں دیکھا ، میں ہوش سنبھالتے ہی جنگوں میں پلا بڑھا ہوں ، اس آدمی نے دو فوجی چھاؤنیوں کو عبور کیا ، جنہیں بڑی فوج بھی عبور نہ کر سکتی تھی، پھر سالار لشکر کا خیمہ کاٹا ، اس کا گھوڑا بھگا کر لے اڑا ، گھڑسوار دستے نے اس کا پیچھا کیا ، جن میں سے محض 3 ہی اس کی گرد کو پا سکے ، ان میں سے ایک مارا گیا ۔جسے ہم ایک ہزار کے برابر سمجھتے تھے ، پھر دوسرا مارا گیا جو ہمارے نزدیک ایک ہزار افراد کے برابر تھا ، اور دونوں میرے چچا کے بیٹے تھے۔میں نے اس کا پیچھا جاری رکھا اور ان دونوں مقتولین کے انتقام کی آگ سے میرا سینہ دھک رہا تھا ، میرے علم میں فارس کا کوئی ایسا شخص نہیں جو قوت میں میرا مقابلہ کر سکے۔اور جب میں اس سے ٹکرایا تو موت کو اپنے سر پر منڈلاتے پایا، چنانچہ میں نے امان طلب کر کے قیدی بننا قبول کر لیا۔اگر تمہارے پاس اس جیسے اور افراد ہیں تو تمہیں کوئی ہزیمت سے دوچار نہیں کر سکتا پھر اس فارسی نے اسلام قبول کر لیا۔

جنہوں نے لشکر فارس کو دہشت زدہ کیا ، ان کے سالار کو رسوا کیا اور ان کی صفوں میں نقب لگا کر واپس آگئے

یہ عظیم جاسوس حضرت طلیحہ بن خویلد الاسدی رضی اللہ عنہ تھے۔

اسی طرح صلاح الدین ایوبی کا جاسوسی کا نظام پوری دنیا کی جنگی تاریخ میں ایک مثال ہے ۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا اگر آپ دشمن کا ایک جاسوس پکڑ کے مار دو تو سمجھو آپ نے دشمن کے ایک ہزار جنگجو مار دیئے __

سلطان صلاح الدین کے دور میں انکا ایک جاسوس فلسطین سے واپس آیا اور صلیبی فوج کے بارے میں مکمل معلومات دیں، سلطان نے اس کو تنخواہ کے علاوہ قیمتی تحائف دیے۔ اس پر فوج کے سپاہیوں نے اعتراض کیا ‏ہم لوگ ہر میدان میں آپ کے ساتھ لڑتے ہیں ہمیں قیمتی تحائف کیوں نہیں دیے جاتے۔ تو صلاح الدین ایوبی نے جواب دیا:

جب آپ لوگ لڑتے ہیں تو میں آپ کے ساتھ ہوتا ہوں اگر آپ لوگ شہید ہو جایئں تو آپ کو یقین ہے کہ آپ کا جنازہ بھی پڑھایا جائے گا اور قبر بھی نصیب ہوگی۔ ‏مگر میرے جاسوس میرے وہ گمنام سپاہی ہیں کہ اگر پکڑےِ جائیں تو انھیں کفن بھی نصیب نہیں ہوتا۔ یہ میری آنکھیں اور کان ہیں جن سے میں میلوں دور دشمن کو دیکھتا اور سنتا ہوں۔

اگر یہ چاہیں تو اپنے ایمان کا سودا کر کے میرے لیےشکست کا باعث بن سکتے ہیں مگر وطن سے دور دشمن کے اندر رہ کر‏یہ لوگ اپنا ایمان نہیں بیچتے اس لیے یہ تم سے زیادہ انعام کے مستحق ہیں۔

اسی طرح ناتھن ہیلے جو امریکی تاریخ کا پہلا جاسوس تھا اس کے آخری الفاظ جو پھانسی کے گھاٹ پر چڑھتے وقت کہے تھے :

”مجھے افسوس ہے کہ پنے وطن پر قربان ہونے کے لیۓ میرے پاس صرف ایک زندگی ہے “

ایک وقت ایسا آۓ کہ آپ پر ایک غیر قوم آکے حملہ آور ہوۓ آپ کے سرزمین پر بزورِ طاقت قبضہ جماۓ اور آپ پر حکمرانی کرے اور آپ کو مجبوراً دفاعی جنگ لڑنا پڑے تو یہ جاٸز ہے اور ایسے جنگ میں جاسوسی کا نظام بنانا ضروری ہوتا ہے کیوں کہ جب آپ کے پاس دشمن کی فوج کی پیشگی درست معلومات موجود ہوں تو جنگ یا جھڑپ کے دوران اس کی فوج کو آپ بےبسی اور عبرت کی مثال بنانےکے پوزیشن میں ہوتے ہیں ۔ ایک مضبوط اور منظم جاسوسی نیٹ ورک قاٸم رکھنے کیلۓ ضروری ہے کہ ایسے نوجوانوں کا انتخاب کیا جاۓ جن میں وہ سب خصوصیات موجود ہو جو ایک جانباز جاسوس کیلیۓ لازمی ہوتے ہیں ۔ایک جاسوس میں ایک ایسا جذبہ موجود ہوں جو باقی تمام تر جذبوں کا گلہ گُھونٹ کر ایک حقیقت منوالے ، جہاں تک ہوسکے چُپ رہ کر خود کو چھپا سکے ، ہمیشہ پُرسکون زہنی حالات میں رہے ، اس میں یہ قابلیت ہو کہ فتح ہضم اور شکست کو برداشت کرسکے کیوں کہ عملی میدان میں حالات تربیت میں بتلاٸی گٸی باتوں سے بالکل مختلف پیش آتے ہیں اور وہی اصل میں ایک جاسوس کے امتحان کا بہترین وقت ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔