خاموش سرگوشیاں: ایک گمنام کمانڈر کی میراث – برزکوہی

1244

خاموش سرگوشیاں: ایک گمنام کمانڈر کی میراث

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

فوجی، عقابی اور فسوں نگاہی ندرتِ تخیل و اعلیٰ طمانیت، عاجزی و سادگی کے ساتھ ہر دیوان میں اپنی فطری خامشی اور تبسم کو لیکر اپنے جنگی تجربات و مشاہدات کو مدنظر رکھ کر انتہائی شائستہ و مدلل اور حسن ادا میں اپنے نقطہ نظر اور سیاسی و جنگی تجزیہ پیش کرنے کے ساتھ پھر بھی اکثر زیادہ تکلم کے بجائے دوسروں کی رائے سننے کو زیادہ ترجیح دینا آپ کی عادت مستمر ہے۔ آپ عمل کو غنیمتِ جاں سمجھ کر فکر کی اونچائیوں پہ باز کی طرح بسیرا کرنے اور مقصد کے گہرے سمندر میں مچھلی کی مانند تیرنے کو فوقیت دیکر خاموشی کے ساتھ تاریخ کی روانی اور روایات کی فراوانی میں تغیر لانے کا موجب بنتے ہیں۔ طاقت کو ملکیت سمجھنے کی ذہنیت سے ماورا ہو کر اُسے اجتماع کی دین اور مقصد کی جمع پونجی جاننا آپ کو ایک روایتی طاقتور وجود کے بجائے متغیر قوت کی مانند سرگرمِ عمل رکھتا ہے، جو آپ سے منسلک ہر شخص کو طاقت کی حقیقی شناخت سے بہرہ ور کرتا ہے۔ اونچے استادہ پہاڑ گواہ ہیں کہ آپ آنکھوں میں زمین کی عشقِ حقیقی کو لیکر اجتماع کی بقائے زیست کی خاطر سفر در سفر استحکام کے رنگوں کو پا چکے ہیں، جن کو فنا کرنا ناممکن امر ہے۔

عمل شعور کے طلسمِ جاوداں کو چھونے میں مدد دیتی ہے، جس کی بدولت ایک شخص نہ صرف خود کو غور و فکر کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے، بلکہ اپنے قریبی دوستوں کو بھی باریک بینی کے ساتھ راہِ راست سے بہرہ مند کراتا ہے۔ آپ بھی ایک ایسے ہی بے غرض شخص اور مہرباں دوست ہیں، جو اپنے عقابی نگاہوں سے معاملات کو پرکھتے ہیں اور اُس کا سدباب کرنے کیلئے اپنے منفرد رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ دُوراندیشی کیلئے جس نورِ نظر کی تمنا کامیاب افراد کرتے ہیں، وہ آپ کے ہاں مسلسل تجربات کی بدولت صحیح و سالم صورت میں موجود ہے، جس کو آپ فقط اپنے پاس رکھنے کے بجائے ایک سچے دوست کی طرح دوسروں تک بغیر لالچ پہنچاتے ہیں۔ ایسے دوستوں کے بارے میں آرڈوے ٹیڈ اپنی کتاب دی آرٹ آف لیڈر شپ میں لکھتے ہیں “کبھی کبھی قریبی دوست اور مشورہ دینے والا مہربان ساتھی اپنی قابلیت کے ساتھ ساتھ رہنماء کو اس حقیقت سے آگاہ کرسکتے ہیں کہ اس کا طاقت کی خواہش رکھنا اس کے زوال کی علامت بن جائے گا۔”

آپ کی سادگی و عاجزی کے تناظر میں ایک بار پھر میں اپنی پسندیدہ کتاب دی آرٹ آف لیڈر شپ کی طرف جاتا ہوں، جہاں آرڈوے ٹیڈ کہتے ہیں “جب ایک رہنماء کا رتبہ بحثیت قائد مضبوطی سے قائم ہوتا ہے تو اس رہنماء کی سادگی و عاجزی پہ زور دینا لوگوں کے لیے بہت متاثر کن ثابت ہوگا۔ لوگ یہ سمجھیں گے کہ وہ ہماری طرح ایک عام ساتھی ہیں: ہمارے جیسے دکھتے ہیں اور کسی شان و شوکت کی تمنا نہیں رکھتے” سادگی، عاجزی، صبر و جذبے کی بدولت آپ ایک کمانڈر سے بڑھ کر ساتھیوں کے درمیاں ایک عام فکری دوست کی مانند مقصد کو پایہ تکمل تک پہنچانے میں سرگرم ہیں۔ کیونکہ آپ اُس بات کا ادراک رکھتے ہیں، جس کے متعلق چینی فلاسفر لاؤ زو کہتے ہیں، یعنی “ سادگی، صبر و جذبہ تینوں آپ کے بہترین خزانے ہیں۔”

حالتِ جنگ میں فرسودہ روایات سے ہٹ کر کچھ منفرد کرنے کے بجائے خوف میں مبتلا ہو کر کمفرٹ زون کے دامن میں پناہ لینا ایک جنگجو کیلئے زہر قاتل کی مانند ہے۔ اس مہلک مرض کی وجہ سے نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے تمام زرائع مسدود ہو جاتے ہیں۔ اس سے نمٹنے کیلئے مشہور امریکہ موٹیویشنل اسپیکر و سابقہ فوجی جے آر مارٹینز کہتے ہیں کہ “ اپنے کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھنا اور ایک انجان چیلنج کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھنا انتہائی اہم ہے۔ وہی چیلنج آپ کو یہ جاننے میں مدد دیتی ہے کہ آپ کیا کر سکتے ہیں۔” اسی نقطے کے پیشِ نظر، مسلسل عمل کی ڈوری کو تھامے ہوئے آپ اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں اور عملاً تجربہ کر رہے ہیں کہ کمفرٹ زون سے سختی سے بغاوت کرنا، سردی کے گوشت نوچنے والی لہروں اور گرمی کے تند و تیز ہواوں سے مقابلہ کرنا، چین و سکوں، خوف و ڈر سے ماورا ہو کر بھوک و پیاس اور بے خوابی کے ہر پرُکھٹن حالت کے دوران میدان جنگ میں دشمن پر کبھی یہاں تو کبھی وہاں کاری ضرب لگا کر انتہائی برق رفتاری سے اپنی گوریلا صلاحیت، قابلیت اور حکمت عملی کے تحت ایک ہی دن میں مسلسل پندرہ گھنٹے پیدل سفر کرکے اپنا مقام تبدیل کرنا اور دشمن کو بار بار نفسیاتی طور پر مفلوج کرکے دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کرنا گوریلا جنگ کی حقیقی روح ہوتی ہے۔ بقولِ جنرل گیاپ “جب آپ کا دشمن دفاعی پوزیشن پر پہنچ گیا ہو تو پھر یہ جان لو کہ وہ شکست کی پہلی سیڑھی پہ ہے۔”

آپ صرف ایک باصلاحیت، بے غرض اور انتہائی بہادرجنگی کمانڈر نہیں بلکہ ایک استعداد رہنما بھی ہیں۔ جس طرح آرڈوے ٹیڈ اپنی کتاب دی آرٹ آف لیڈر شپ میں لکھتے ہیں “ایک کمانڈر کو اس خواہش میں دلچسپی ہے کہ مشترکہ عمل کو کیسے یقینی بنایا جائے؛ یہ لوگوں پر طاقت استعمال کرنے والا عمل ہے۔ جبکہ ایک رہنماء کو اس کام میں دلچسپی ہے کہ لوگوں کو کس طرح اکٹھا کیا جائے تاکہ وہ مشترکہ مقصد پر باخوشی احسن طریقے سے کام کریں “ ایک رہنما جب کمانڈ کرنے کی ذمہ داری سنبھالتا ہے، تو وہ فقط احکامات جاری رکھنے کے عمل میں مصروف نہیں رہتا، بلکہ از خود ایک مثالی کردار بن کر بہترین راستے کا تعین کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملنسار ہو کر محوِ سفر ہوتا ہے۔ اس امر کی تشخیص جے سی میکسول اپنی کتاب The Right to Lead میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “بہترین رہنما میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ ملنسار ہوتے ہیں۔”

روایتی قیود سے مبرا آپ کے کثیر جہت شخصیت اور خصائص میں سے اہم خاصیت، جو ایک جنگی کمانڈر کی حقیقی وسائنسی تعریف ہوتی ہے، یہ ہے کہ آپ اُن روایتی جھمیلوں سے پاک ہیں، جن میں ایک کمانڈر رہنمائی کے بجائے حاکمیت کا بُت بن کر غیر متحرک و غیر عملی قوت بن جاتا ہے۔ آپ کمانڈری کو رتبہ و مرتبہ، معتبری و منصب، شان و شوکت اور دستار بندی کے بجائے ایک تنظیمی و قومی زمہ داری اور امانت سمجھ کر ہمیشہ اس مستند اصول پر کاربند رہ کر دن رات اپنی زمہ داریوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتے رہے ہیں۔ بروقت فیصلہ کرنا، اپنی فوجی و جنگی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرنا اور ان میں جدت و شدت پیدا کرنے کی کوشش میں مگن رہنا آپ کے چند ایسے چیدہ خصائص ہیں، جن سے دیگر ساتھی مسفید ہو کر بے غرضی سے عملاً سرگرم ہیں۔ آپ ہمیشہ علم و حکمت پر سب سے پہلے خود عمل کرتے ہوئے اپنے ہمرکاب اور ہمسفروں کو عمل کرنے کی تربیت و ترغیب دیتے ہو، جس کے بدولت درمیاں میں موجود روایتی بُتِ کمانڈری ٹوٹ کر متغیر وجود بن کر اُبھرتی ہے۔

جب بھی کوئی گوریلا کمانڈر، گوریلا جنگ اور گوریلا اصولوں سے نا بلد ہوتا ہے، اپنی جغرافیہ و عوام کی نفسیات و حالات سے ناشناس ہوتا ہے، اور خاص طور پر اپنے ساتھیوں و سپاہیوں کے مزاج و طبیعت، صلاحیت اور خواہشات سے ناواقف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی دشمن کے کاونٹر گوریلا پالیسی و حکمت عملی پہ مبنی سازشوں، چال بازیوں اور مکاریوں سے عدم واقفیت کا شکار ہوکر مکمل بیگانہ ہوتا ہے، تو وہ علمی و سائنسی لحاظ سے ہرگز گوریلا کمانڈر کی تعریف اور معیار پر نہیں اترتا، بلکہ وہ ایک تخویف مشرب روایتی و علاقائی سردار، ٹکری، میر و معتبر یا روایتی سیاسی کیڈر ہی ہوسکتا ہے۔ اس کی زوایہ نظر، عمل و کردار بھی عام اور روایتی ہوتے ہیں۔ وہ کارکردگی دکھانے، جنگ کو آگے بڑھا کر وسعت دینے اور دشمن کو نقصان دینے کے بجائے اُسے اپنے کردار سے فائدہ پہنچاتا ہے، اور اپنی بے عملی کے عمل میں خود کو فناء کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں کو بھی زوال پذیر کرتا ہے۔ اسی لیے، ایسا سمجھنا پھر کبھی بھی غلط نہیں ہوگا کہ وہ ایک ہاری ہوئی یا منافع خوری پہ مبنی جنگ لڑ کر مقصد و نتیجے کے بغیر اپنا اور اپنے زیر کنٹرول دوستوں کا وقت ضائع کررہا ہے۔

جب ایک جنگی کمانڈر فرسودہ روایات کے ساتھ ایک میر ومعتبر شخص کے اوصاف کا لبادہ پہنتا ہے، تو وہ خود کو نئے صورتحال میں ڈھالنے کے بجائے کہنہ پرستی کے ساتھ غیر موثر سوچ ورویہ رکھتا ہے۔ وہ ماضی کے لطافتوں کا تذکرہ کرکے خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی اُسی زاویے سے دیکھنے کیلئے لغویات جھاڑتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے کی زرا برابر کوشش نہیں کرتا کہ وقت کا تقاضہ کیا ہے، بلکہ وہ “جو ہے، بس یہی ہے” کا رٹ لگا کر، اور لغویات سے سجائے ہوئے بہانے پیش کرکے داد و تحسین رسید کرتا ہے۔ وہ جنگ کو بھی اُسی پیمانے میں دیکھتا ہے، جس طرح ایک عام شخص دیکھتا ہے۔ لیکن بقول اولیسز گرانٹ، “میں فوجی چالوں کے علم میں کمتر نہیں سمجھتا، لیکن اگر لوگ چند مخصوص طریقوں کی غلامانہ پیروی سے جنگ لڑیں گے تو ناکامی یقینی ہے: جنگ مسلسل بدلنے والا عمل ہے۔” اسی طرح، رابرٹ گرین بھی اپنی کتاب Thirty-three Strategies of War میں لکھتے ہیں کہ، “کبھی کبھی خود کو جھجھوڑ کر ماضی کی زنجیریں توڑنا چاہیئے۔ خود کو عمل کے نئے انداز سے متعارف کرانا چاہیے اور نئے حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔”

گھر سے نکل کر شعوری طور پر قربانی کے جوش وجذبے سے سرشار ہو کر تاریخی دور میں ایک تاریخی کردار نبھانے والے قومی سپاہی جب قومی فرض وزمہ داریوں کے ساتھ مکمل نا انصافی کرتے ہیں، تو اس کے پیچھے بنیادی وجہ ایک نااہل ونام نہاد کمانڈر ہی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ حقیقی کمانڈر کی عقابی نگاہیں ماضی و حال کے لطافت و خوش فہمیوں کے بجائے مستقبل کی جانب مرکوز ہوتی ہیں۔ وہ اپنی فوجی و سیاسی سروس کی بیساکھیوں کا سہارہ لیکر داد و تحسین، خوشامد اور جی حضوری کی فرمائش نہیں کرتا بلکہ خود سے بہتر مہارت و صلاحیت رکھنے والے ساتھیوں کو سامنے لانے کیلئے عاجزی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسی طرح، ایک قومی، حقیقی اور مافوق البشر کمانڈر اپنے سپاہیوں کی صلاحیتوں کو سب سے پہلے اولین ترجیحات میں شامل کرکے، ان کے خصائص میں مزید نکھار اور consistency پیدا کرکے انھیں ہمیشہ قومی و تاریخی کردار نبھانے کے لیے موقع فراہم کرتے ہوئے پرکھٹن ، تکلیف دہ ، پرآزمائش اور پرخطر راہوں میں ڈال کر ذمہ داری سونپ دیتا ہے۔ جب کہ ایک نااہل و برائے نام کمانڈر اپنے سپاہیوں کی شعور و تخلیق، جوش و جذبے اور صلاحیتوں کو مسخ کرکے انھیں صرف اپنی نمود و نمائش، شہرت اور جنگی منافع خوری کے لیے پیروکار و تابعدار اور چاپلوس کی مانند رکھ کر پرآسائش، نرم و ملائم ماحول اور مادی سہولت فراہم کرکے مصنوعی مہر و محبت کے زریعے قومی حوالے سے زوال پذیر کردیتا ہے۔

اسی تناظر میں، دوسری جانب ہمارے موصوف الذکر نہ خود کو قومی حوالے سے زوال کرنے کے ساتھ اپنے قومی و قیمتی وقت کو ضائع کرتا ہے اور نہ ہی اپنے جانثار ساتھیوں کو زوال و بربادی کی طرف لیجاتا ہے، بلکہ اپنے رتبے و مرتبے کو قومی امانت سمجھ کر ہر سنگت پہ قومی کردار نبھانے اور زمہ داریاں سنبھالنے کیلئے فوجی آپریشنز اور جنگی مہمات کے فرائض تفویض کرتا ہے، تاکہ جنگ کا دائرہ وسعت اختیار کرے۔ وہ اپنے جنگی مہارتوں کو سر کا تاج سمجھ کر اُنہیں خود تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ اُسے دیگر ساتھیوں سے واقف کراتا ہے۔ مختصراً یہ کہ وہ سابقہ امریکی ریاست کی سیکریٹری کانڈولیزا رائس کے ان الفاظ کو عملی جامہ پہنانے والے حقیقی کمانڈر و رہنما ہیں، یعنی “ یقیناً بہترین قیادت کے معنی فقط دوسروں کو پیروی کرنے کیلئے قائل کرنا نہیں بلکہ اُنہیں از خود قائد بننے کیلئے متاثر کرنا ہے، اور آنے والے نسلوں کیلئے بہتر مواقع کی خاطر موثر حالات ترتیب دینا ہے۔”
وہ یہیں کہیں ان پہاڑوں میں ہے، ایک ناپید لمحے کے درمیاں، جہاں صبح کی سانسیں شام کے افسردہ لمحوں سے جا ملتی ہیں۔ وہ، وہ طوفان ہے جو پتوں کو ہلکے سے ہلاتا ہے مگر ہوا پر کوئی نشان نہیں چھوڑتا، وہ ایک پوشیدہ سلطنت کا معمار ہے، جس کا نام ابھی وقت کی بازگشت میں نہیں لکھا گیا ہے۔ وہ کمانڈ، وہ ہاتھ ہے، جو تلواروں کی جھنکار کے بجائے تقدیر کے نازک دھاگوں سے معرکوں کو شکل دیتا ہے۔ وہ خاموش قوت ہے، گرج سے پہلے کی سانس ہے، جو قسمت کی دہلیز پر کھڑا ہے مگر ان آنکھوں سے چھپا ہوا جو صرف گزرے ہوئے وقت کو دیکھتی ہیں۔ اس کی فتوحات بے آواز ہیں، زمین پر بیجوں کی طرح بکھری ہوئی ہیں، جو ابھی وقت کی مٹی میں پنپنے کے لیے تیار ہیں۔ اور پھر بھی دنیا سو رہی ہے، اس آگ سے انجان جو سایوں کے اندر دہک رہی ہے، کیونکہ ہم جیتے جاگتے لوگوں کو ان کی زندگی میں دیکھنا بھول چکے ہیں، بس اس وقت جاگتے ہیں جب وہ یادوں میں بدل جاتے ہیں۔

وہ وقت آئے گا جب اس کا نام، ہوا سے دھکتی ہوئی، شعلوں کی طرح بھڑک اٹھے گا، اور تبھی دنیا کی نظریں اس پر پڑیں گی۔ لیکن تب تک، وہ آگے بڑھ چکا ہوگا، ایک سایہ جو دھوئیں میں بدل چکا ہوگا، جیسے افق جو ہمیشہ پہنچ سے دور لگتا ہے۔ مگر اسکی خاموشی میں بھی ایک نایاب جمال ہے، ان لوگوں میں جو بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں مگر ان کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ اس کی کہانی، آج نہ سہی، کل کی خاموشیوں میں ضرور لکھی جائے گی۔ جب زمین پلٹ جائے گی اور ستارے دوبارہ اپنی جگہ بدلیں گے، ہم نہ صرف ان کے نقش قدم دیکھیں گے جو گزر چکے ہیں بلکہ ان کے بھی جو آج بھی ہمارے ساتھ چل رہے ہیں۔ اور یہ تحریر، اور کچھ نہیں، بس ایک خاموش سپاہی کے نام وہ نذر ہے، جو وقت کی گہرائیوں میں کھو کر بھی اپنی داستان خاموشی سے لکھتا چلا جا رہا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں۔