امریکہ اور فرانس کا اسرائیل اور لبنان میں 21 روزہ جنگ بندی کا مطالبہ

90

امریکہ، فرانس اور اتحادی ملکوں نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 21 روزہ فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ فریقین مذاکرات کے ذریعے تنازعے کا حل تلاش کر سکیں جہاں لبنان میں گزشتہ دنوں 600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائنز میں مذاکرات کے بعد امریکہ، فرانس آسٹریلیا، کینیڈا، یورپی یونین، جرمنی، اٹلی، جاپان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے ایک مشترکہ بیان میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

اقوام متحدہ میں صدر بائیڈن اور صدر ایمانوئیل میکخواں کی ملاقات کے بعد فرانس نے سکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں جنگ بندی کی تجویز پیش کی۔

فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئیل بیرٹ نے کہا کہ دونوں مغربی طاقتیں لبنان اور اسرائیل میں مذاکرات کے آغاز کے لیے 21 روزہ ’عبوری جنگ بندی‘ کی تجویز پیش کرتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’تمام فریقوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی کی طرف آئیں۔‘

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے لبنان میں فوری جنگ بندی کے لیے زور دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ایسا نہ کرنے سے ’خوفناک تباہی پھیل سکتی ہے۔‘

اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ سفارت کاری کو خوش آمدید کہتا ہے لیکن حزب اللہ کی طاقت کو ختم کرنے کے اپنے مقصد کی جانب گامزن رہے گا۔

بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ جنگ بندی کا اطلاق اسرائیل اور لبنان کے درمیان سرحد قرار دی جانے والی ’بلیو لائن‘ کے اطراف ہوگا اور اس دوران فریقین تنازعے کو سفارتی طریقے سے حل کرنے کے لیے بات چیت کریں گے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب ڈینی ڈینن نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم اُن سب کے شکر گزار ہیں جو سفارت کاری کے ذریعے کشیدگی کو ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے مخلصانہ کوشش کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بین الاقوامی قانون کے مطابق اپنے تمام وسائل کا استعمال کریں گے۔‘

خطے میں کشیدگی کا پھیلاؤ اس وقت ہوا جب غزہ میں اسرائیل کے حملوں کو روکنے میں گذشتہ ایک برس سے دُنیا ناکام ہو گئی۔

ادھر ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی طاقتوں نے اپنا کرادار ادا نہ کیا تو اُن کا ملک زیادہ دیر تک تحمل کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’خطہ مکمل تباہی کے دہانے پر ہے اور اگر روکا نہ گیا تو پوری دنیا اس تباہی کے اثرات دیکھے گی۔‘