آپریشن ھیروف: بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی قوت کے اسباب و مضمرات | ٹی بی پی رپورٹ

3393

آپریشن ھیروف: بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی قوت کے اسباب و مضمرات

ٹی بی پی رپورٹ

انیس بارانزئی، آصف بلوچ

پچیس اور چھبیس اگست کی درمیانی شب بلوچستان میں سرگرم بلوچ مسلح تنظیم، بلوچ لبریشن آرمی نے بلوچستان بھرمیں سلسلہ وار حملوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا، جس میں بی ایل اے کے مجید برگیڈ، ایس ٹی او ایس اور فتح اسکواڈ جیسے یونٹوں کے سینکڑوں جنگجووں نے حصہ لے کر بیس گھنٹوں تک بلوچستان بھر میں حکومتی رٹ کو چیلنج کیئے رکھا، اور بلوچستان بھر پر ایک مختصر مدت کیلئے اپنا عملی کنٹرول قائم کیا۔ جس کو بی ایل اے نے آپریشن ھیروف کا نام دیا۔ ھیروف بلوچی اور براہوئی زبان کا لفظ ہے، جسکے معنی کالی آندھی کے ہیں۔

آپریشن ھیروف، بلوچ لبریشن آرمی کی فدائی یونٹ مجید برگیڈ کا چوتھا بڑاآپریشن تھا، اس سے پہلے بی ایل اے مجید بریگیڈ آپریشن زرپہازگ (11مئی 2019، 20اگست 2022،13 اگست2023،20مارچ 2024،25 مارچ 2024)، آپریشن گنجل (2 فروری 2022)اور آپریشن درہ بولان(29 جنوری 2024)سرانجام دے چکا ہے، اور مختلف دفاعی تجزیہ کار ان تمام آپریشنز کو اپنے تئیں کامیاب قرار دے چکے ہیں۔ تاہم ان تمام حملوں میں سے آپریشن ھیروف بلوچ مسلح مزاحمت کی تاریخ کی سب سے بڑی عسکری کاروائی قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں بی ایل اے نے مکران سے لے کر کوہ سلیمان تک اہم شاہراہوں اور اہم مقامات پر بیس گھنٹوں تک قبضہ برقرار رکھ کر حکومتی رٹ کو عملی طور پر ختم کردیا تھا۔

بی ایل اے کی کامیابی کے اسباب کیا ہیں؟

دو دہائیوں سے زائد عرصے سے بلوچ لبریشن آرمی روایتی گوریلہ جنگ کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے، ایک “لو انسرجسنی” بلوچستان میں قائم کیئے رکھا تھا۔ لیکن دو ہزار اٹھارہ اور بعد کے سالوں میں بی ایل اے نے فدائی حملوں اور کمپلکس و مربوط آپریشنوں کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے ریاست پاکستان کو ایک نئے بڑے چیلینج سے دوچار کردیا ہے۔ اِن حملوں کے وجوہات جاننے کے لئے ہمیں بلوچ لبریشن آرمی کے اندروانی کہانی کو جاننا پڑیگا، جو ان کامیابیوں کے اسباب کو جانےکے لئے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی نے اپنی روایتی گوریلہ کاروائیوں میں جدت لانے کا آغاز تب کیا جب بی ایل اے کے تئیں بڑی ادارہ جاتی تبدیلیاں لاتے ہوئے، نئے ادارے قائم کیئے گئے اور از سرنو تشکیل کے بعد اسلم بلوچ المعروف جنرل تنظیم کے سربراہ چنے گئے اور بعد ازاں گیارہ اگست دو ہزار اٹھارہ کو بی ایل اے مجید بریگیڈ کے دوسرے فدائی ریحان اسلم نے بلوچستان کے علاقےدالبندین کے مقام پر چینی انجینئروں کے قافلے میں شامل ایک بس کو فدائی حملے میں نشانہ بناکر، مجید بریگیڈ میں ایک نئی روح پھونک دی۔

مجید برگیڈ بی ایل اے کے اعلیٰ تربیت یافتہ سرمچاروں پر مشتمل فدائی یونٹ ہے، جو بی ایل اے کے ایک اعلیٰ کمانڈر مجید ثانی کے نام سے منسوب ہے۔ جو سترہ مارچ دوہزار دس کو بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کے علاقے گولیمار چوک کے نزد پاکستانی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں جانبحق ہوئے، مجید برگیڈ نے اپنی پہلی کاروائی سنہ دوہزار گیارہ کو31 دسمبر کے دن مبینہ ڈیتھ اسکواڈ سرغنہ شفیق مینگل پر حملہ کرکے سرانجام دیا۔ طویل خاموشی کے بعد مجید برگیڈ نے گیارہ اگست دوہزار اٹھارہ کو دالبندین کے مقام پر چینی انجینئروں کے قافلےکو نشانہ بنایا ، جس کے بعد سے ابتک بی ایل اے مجید برگیڈ نے کراچی، گوادر، تربت ، پنجگور، نوشکی ، بولان اور بیلہ میں بڑے پیمانے کے بارہ فدائی کاروائیاں سرانجام دے چکا ہے۔ جن میں 64 فدائین نے حصہ لیا ہے۔ گیارہ اگست دوہزار اٹھارہ کے فدائی حملے کے بعد بی ایل اے نے بلوچستان میں پاکستانی فوج کے اہم عسکری اہداف، اُن کے معاشی مفادات، چین پاکستان اقتصادی راہداری اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں پر شدید حملے کرچکا ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی میں قیادت کی تبدیلی کے علاوہ اِن کامیاب اور متاثر کُن حملوں کی ایک بڑی وجہ عوامی حمایت ہے۔ جہاں بلوچ قوم کی خاموش اکثریت کا جھکاؤ بی ایل اے کو حاصل ہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ پاکستانی ریاست اور فوج کی انتہائی کوششوں کے بعد بھی بی ایل اے پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی کا بنیادی موقف و بیانیہ یہ ہے کہ پاکستان بلوچستان پر جبری طور پر قابض ہے اور بی ایل اے بلوچ قومی فوج ہے، جو اس قبضے سے نجات کیلئے لڑ رہی ہے۔ بی ایل اے بالخصوص گذشتہ پچیس سالوں سے اپنے بنیادی موقف “بلوچستان کی آزادی” پر اٹل رہ کر پاکستان فوج سے برسرپیکار ہے۔ بی ایل اے کے موقف کی تاریخی سچائی اور اس پر پچیس سالوں سے ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہنے کی وجہ سے بلوچ عوام میں انکی طرف ایک نرم گوشہ اور عملی حمایت دیکھنے کو ملتی ہے۔

جبکہ دوسری طرف بلوچستان میں جاری پاکستانی مبینہ جبر اور ظلم و زیادتیاں دہائیوں سےجاری ہیں، جبری گمشدہ افراد، مسخ شدہ لاشیں، فوجی آپریشن اور معاشی و توسیع پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ریاست پاکستان بلوچ عوام کی حمایت عملی طور پر کھوچکا ہے۔ اور بطور پروپگنڈہ جتنی حمایت ظاہر کی جاتی ہے، اسکے پشت میں خوف یا لالچ پنہاں ہوتا ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں میں بلوچ قوم کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ مغربی و مشرقی بلوچستان کو الگ کرنے والی گولڈ سمتڈ لائن پر باڑ لگا کر کاروبار پر قدغن لگانے جیسے عوامل سے بی ایل اے کے اس موقف کی مزید تائید ہورہی ہے کہ بلوچ قوم کی معاشی ترقی پاکستان کے نظام میں رہ کر ممکن نہیں ہے۔

بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی عوامی حمایت کے اسباب:

بلوچ انسرجنسی پہ نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سرفیس سیاست یا پرامن جدوجہد پہ ریاستی پابندیوں کی وجہ سے بلوچ نوجوانوں کےلئے اپنی آواز بلند کرنے کے باقی تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ محض جلسے جلوس و پریس کانفرنسوں پر بلوچوں کو اٹھا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، بسا اوقات انہیں خاموش کرنے کیلئے، انکا بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بلوچ نوجوان مسلح جدوجہد کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہیں دیکھتے۔ بلوچ قوم پرست حلقوں میں عمومی رائے یہ ہے کہ “مارے ویسے بھی جارہے ہیں، تو نہتے مرنے سے بہتر ہے کہ مزاحمت کرتے ہوئے مرا جائے۔”

محض طلبا سیاست پر نظر ڈالی جائے تو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ کو18 مارچ دوہزار چودہ کو، وائس چیئرمین زاکر مجیدکو8 جون 2009 کو، انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2014، بی این ایم کے رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28 جون 2009 کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنا کر لاپتہ کردیا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں، یہ محض چند چنیدہ مرکزی عہدیداروں کے نام ہیں، ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی کارکنان جبری گمشدگی کے شکار بنائے گئے ہیں، جن کے بارے میں کوئی ایسی معلومات نہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ارکان لالا منیر اور شیر محمد کے ہمراہ تربت سے ان کے وکیل کچکول علی ایڈوکیٹ کے چیمبر سے تین اپریل دوہزار نو کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لے لیا اور نو اپریل دوہزار نو کو ان تینوں کی مسخ شدہ لاش تربت کے نواحی علاقے مرگاپ سے برآمد ہوئی، اسی طرح بی این ایم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر منان کو تیس جنوری2016 کو مستونگ میں پاکستانی فورسز نے دیگر پانچ ساتھیوں سمیت قتل کردیا، بلوچ ریپبلیکن پارٹی کے مرکزی رہنما جلیل ریکی کو 13 فروری 2009 کو پاکستانی فورسز نے حراست میں لے لیا اور 24 نومبر 2011 کو ان کی مسخ شدہ لاش ضلع کیچ سے برآمد ہوئی ہے جبکہ بی ایس او آزاد کے سابق وائس چیئرمین سنگت ثناء بلوچ جنہیں 7 دسمبر 2009 کو فورسز نے حراست میں لیا اور 13 فروری 2012 ان کی لاش تربت سے برآمد ہوئی۔ بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل رضا جہانگیر کوچودا اگست2013 کو فورسز نے تربت میں بی این ایم کے رہنما امدا بجیر کے ہمراہ قتل کردیا۔ بی ایس او آزاد کے سنٹرل کمیٹی کے رہنما کمبر چاکر، الیاس نذر کو جبری گمشدگی کے بعد 5 فروری 2011 کو قتل کرکے انکی مسخ شدہ لاشیں ایک ساتھ پھینکی گئیں۔ انکے علاوہ سینکڑوں سیاسی کارکان پاکستانی فوج نے مبینہ طور پر براہ راست یا بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈوں کے ذریعے قتل کردیا ہے۔

بلوچ قوم پرست حلقوں کا ماننا ہے کہ بلوچستان میں ابھرتی ہوئی سیاسی ابھار کو پاکستان روز اول سے بزور طاقت ختم کرنے پر عمل پیرا ہے۔ اس کی تازہ مثال حالیہ دنوں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے منعقد بلوچ راجی مچی کے دوران پاکستانی فورسز کا تمام راستے بند کرنے اور لوگوں کو گوادر تک پہنچنے سے روکنے کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک بار پھر بلوچ نوجوانوں کیلئے ایک پیغام بنتا جارہا ہے کہ بلوچستان میں آواز صرف بندوق سے اٹھائی جاسکتی ہے، ورنہ پرامن آوازوں کو بے دردی کے ساتھ ہمیشہ کیلئے خاموش کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی ریاست اپنی ہی غلط پالیسوں کی وجہ سے بلوچستان میں عملی طور پر پوری عوامی حمایت کھوچکا ہے۔ جو بلوچ مسلح تنظیموں کے لئے مزید ساز گار ماحول پیدا کررہا ہے۔ قبضے کی تاریخی سچائی اور پاکستانی فوج کے روئے کی وجہ سے بلوچ عوام کا جھکاؤ اور ہمدردیاں بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیموں کی طرف بڑھ رہا ہے اور نوجوان جوق در جوق مسلح تنظیموں میں شامل ہورہے ہیں۔

محض بی ایل اے کے اندر ہی دیکھا جائے تو قیادت اور لڑائی پہلی نسل سے دوسری اور اب تیسری نسل کو منتقل ہوچکا ہے۔ ہر انتقال اقتدار کے بعد بی ایل اے کے حملوں میں مزید شدت اور جدت ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی عوامی حمایت کی ایک اور وجہ جسے نظر انداز کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ بی ایل اے کی طرف سے جاری اس مسلح جدوجہد کے دوران، عوامی املاک اور جان کے نقصانات نہ ہونے کے برابر رہے ہیں۔ پچیس سالوں سے جاری اس لڑائی میں بی ایل اے اس امر پر خاص توجہ مرکوز کی ہوئی ہے کہ ان کے حملوں میں بلوچ عوام یا عام شہریوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے۔ دوسری طرف پاکستانی فوج، بی ایل اے سے کئی گنا زیادہ عوامی جانی و مالی نقصان کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ملاحظہ ہو کہ بی ایل اے جب بھی بلوچستان کے شاہراہوں پر ناکے ڈالتی ہے تو ایمبولنسوں اور خواتین و بچوں کو احترام کے ساتھ گذرنے کا راستہ فراہم کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی فوج کے ناکوں میں صورتحال اسکے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے عوام میں بی ایل اے کے اس بیانیئے کو تقویت ملتی جارہی ہے کہ پاکستانی فوج قابض ہے اور بی ایل اے بلوچ قوم کی دفاعی جنگ لڑرہی ہے۔

ریاستی بیانیہ اور زمینی حقائق:

ریاستی بیانیہ شروع سے یہی رہا ہے کہ بلوچستان میں جاری شورش کی وجہ بین الاقوامی مداخلت ہے، جو من پسند ریاستی رائے عامہ گھڑنے کی ریاستی پروپگنڈہ کی حد تک ہی سچ ہے۔ تاہم زمینی حقائق اسکے بالکل برعکس ہیں۔ بی ایل اے میں تعلیم یافتہ نوجوان اپنا جان، مال اور کیرئیر قربان کرتے ہوئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ کوئی بھی باشعور تعلیم یافتہ انسان محض پیسوں کی خاطر اپنی جان کی قربانی نہیں دے سکتا۔ اس کی تازہ مثال کے طور پر بی ایل اے میں شامل خواتین فدائین کو لے لیں، جن میں شاری بلوچ ایم فل کررہی تھی، سمعیہ بلوچ صحافت کے شعبے سے وابستہ تھی اور ماھل بلوچ قانون کی طالبہ تھی۔

بی ایل اے مجید بریگیڈ کے کراچی اسٹاک ایکسینج حملے میں شامل سلمان حمل ایک مصنف اور شاعر تھے، جبکہ آپریشن درہ بولان میں حصہ لینے والے فدائی حمل مومن ایک ناولسٹ تھے اور باقی جتنے بھی مجید بریگیڈ کے فدائین ہیں، ان میں زیادہ تر کا تعلق ادبی و علمی حلقوں سے کسی نا کسی طرح رہا ہے، جس کے سبب بلوچ مزاحمت کاروں کے خلاف ریاستی بیانیہ کو عوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں مل رہی ہے۔

اسکے علاوہ مجید برگیڈ کے دوسرے فدائین کی تفصیلات پر ایک مختصر نظر دوڑا کر دیکھیں، کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے میں شامل فدائی عبدالرازق بلوچ ایک تعلیم یافتہ نوجوان اور شاعر تھے، آپریشن گنجل میں شامل نوشکی ایف سی کیمپ کے کمانڈر بادل بلوچ بلوچستان یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہونے کے علاوہ ایک کالم نگار بھی تھے جو بلوچی، اردو اور انگریزی زبان پر عبور رکھتے تھے، جبکہ اسی حملے میں شامل ایک اور حملہ آور رؤف بلوچ اردو اور بلوچی میں شاعری اور کالم نگاری کرتے تھے، جبکہ یاسر نور بھی ایک کالم نگار تھے۔ عزیز زہری براہوئی زبان کے ایک بہترین شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے، اسی طرح مراد آجو بلوچی زبان کے شاعر اور مصنف تھے۔ آپریشن گنجل کے دوسرے حملے پنجگور حملے میں شامل حملہ آور سمیع سمیر کا شمار بلوچستان کے ضلع پنجگور کے بہترین فٹبالروں میں ہوتا تھا، جبکہ اسی حملے کو کمان کرنے والا حامد اور الیاس بھی جانے مانے فٹبال کے کھلاڑی تھے۔ آپریشن درہ بولان کو کمان کرنے والا عطاء بلوچ بھی لکھاری و شاعر تھے، زیشان زہری حافظ القران تھے، گوادر میں مجید برگیڈ کے آپریشن زرپہازگ کے چوتھے حملے میں شامل بابر ناصر اور خلیف بلوچ بھی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھاری اور شاعر تھے۔

ریاست کا ایک یہ بیانیہ بھی رہا ہے کہ بلوچستان میں جاری آزادی کے جنگ کے ذمہ دار صرف مٹھی بھر افراد یا چند سردار ہیں لیکن حالیہ دنوں بلوچستان حکومت کی جانب سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پروفیسرز، طلبا رہنماوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم تین ہزار افراد کو فورتھ شیڈول میں ڈال کر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کا تعلق بلوچ لبریشن آرمی سے ہے، جو حکومتی بیانیہ کو خود رد کرتے ہوئے اس بات کی تائید کرتا ہے کہ بی ایل اے کو بلوچ عوام کی تعلیم یافتہ طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ جہاں تک سرداروں کی بات ہے تو اس وقت بلوچستان کا ایک بھی سردار بلوچستان کی آزادی کی جنگ میں شامل نہیں۔ بلکہ تمام کے تمام پاکستانی فوج کے ایما پر لائے گئے سردار ہیں، جنہیں ٹھیکوں اور وزارتوں کے ذریعے ریاست کا وفادار بنایا گیا ہے۔ روایتی طور پر مری، بگٹی اور مینگل کہہ کر جن تین سرداروں کو ریاست مخالف قرار دیا جاتا تھا، وہ بھی اب ریاست پاکستان کے ساتھ ہیں۔ مری قبیلے کے نواب خیربخش مری کے انتقال کے بعد نواب چنگیز مری بن چکے ہیں جو مسلم لیگ ن میں شامل ہیں اور وفاقی سیاست کرتے ہیں، بگٹی قبیلے کے نواب اب عالی بگٹی ہیں، جو فوج کی تحفظ میں رہتے ہوئے کراچی میں رہائش پذیر ہیں اور عطااللہ مینگل کے سیاسی وارث اختر مینگل ہمیشہ سے ہی ریاستی فریم ورک کے اندر ہی رہ کر سیاست کررہے ہیں۔

اختتامیہ:

اس تجزیئے سے یہ امر ثابت ہوجاتی ہے کہ بی ایل اے کی اس نئی قوت اور اثر انگیزی کے پیچھے نا بیرونی قوتوں کا عمل دخل نظر آتا ہے اور نا ہی بلوچستان کی روایتی قبائلی طاقت اسکے پیچھے ہے، بلکہ اسکی وجوہات درج ذیل ہیں۔
۱۔ بی ایل اے کا خود کو قبائلی اثرورسوخ و ڈھانچے سے نکال کر ایک ادارے کی قالب میں مکمل طور پر ڈھالنا۔
۲۔ پہاڑوں تک محدود رہنے کے بجائے، نکل کر خود کو ایک عوامی تحریک ثابت کرنا۔
۳۔ بلوچ تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کی توجہ حاصل کرنا۔
۴۔ ایک وسیع پیمانے پر بلوچ عوام کی حمایت اس حد تک حاصل کرنا کہ آپریشن ھیروف جیسے مربوط حملے ہوسکیں۔
۵۔ پچیس سالوں سے ہر قسم کی قربانیاں دینے کے باوجود اپنے ایک ہی موقف پر ڈٹے رہ کر عوامی بھروسہ جیتنا شامل ہے۔

ان وجوہات کے علاوہ بلوچ لبریشن آرمی کا صحافت، سیاست، سفارت اور پروپگنڈہ و لٹریچر جیسے جہتوں پرتوجہ مرکوز کرکے، پاکستانی ریاست اور فوج کے خلاف متعدد غیر عسکری محاذ کھولنا اور ان میں کامیابیاں حاصل کرنا، بی ایل اے کی قوت میں اضافے کے اسباب میں شامل ہیں۔

ان امور پر غور کرنے کے بعد یہ کہنا محض قیاس آرائی نہیں ہوگی کہ آنے والے وقت میں بلوچستان میں جاری جنگ کی شدت میں ہمیں ایک ہوشربا اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔