آٹھ فٹ کی بلا، پنجابی کا دل اور پکوڑوں کی دکان ۔ ساجد بلوچ

1033

 

آٹھ فٹ کی بلا، پنجابی کا دل اور پکوڑوں کی دکان

تحریر: ساجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

دو ہزار پانچ اور چھ کے دوران ہمیں سیاست کی کچھ خاص سمجھ نہ تھی، لیکن سردار صاحب کی تقریریں بڑی توجہ سے سنا کرتے تھے۔ “ڈیرہ بگٹی سے گوادر تک پنجابیوں کو بلوچستان سے نکالنے” والا نعرہ سب سے مقبول تھا۔ نواب صاحب کی شہادت کے بعد پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ہم جیسے نادان نوجوانوں کے لیے ایک بڑا قدم محسوس ہوا۔ پھر جب جناب جیل گئے تو وہ خود اتنے پریشان نہیں تھے جتنا ہماری نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔ جیل سے نکلتے ہی وہ سیدھا دبئی چلے گئے، اور ہماری نظروں میں ایک جلا وطن رہنما بن گئے، جو اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔

دو ہزار بارہ میں، جب بلوچ تحریک اپنے عروج پر تھی، اچانک سردار صاحب کو پارلیمنٹ کی یاد ستانے لگی۔ ایک دن وہ دبئی سے پاکستان آئے اور اپنے پرانے ساتھی نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک پریس کانفرنس میں بلوچ تحریک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “جو آٹھ فٹ کی بلا تھی، ہم اس تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ اب پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ دل بڑا کرے اور ہمیں ایک اور موقع دے۔”

دو ہزار بارہ سے دو ہزار چوبیس تک بارہ سال گزر گئے۔ اس دوران نہ جانے کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں، لیکن سردار صاحب نے ہر کسی کو آزمایا، مگر پنجابیوں کے “ڈیڑھ انچ کے دل” میں اپنے لیے جگہ بنانے میں ناکام رہے۔ بارہ سال بعد جناب کو یہ پتہ چلا کہ پنجابیوں کے دل میں جگہ بنانا آٹھ فٹ کی بلا پر چڑھنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ آٹھ فٹ کی بلا نہ جانے کتنے بلوچوں کو نگل چکی ہے اور اب آٹھ سے سولہ اور سولہ سے بتیس فٹ کی ہو چکی ہے۔

اس دوران، اس بلا پر چڑھنے کی کوشش میں اختر مینگل جیسے کتنے سردار یا امیدوار گر چکے ہیں اور کچھ ابھی بھی اس بلا کے پنجوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سردار صاحب کے لیے اب اس بتیس فٹ کی بلا تک پہنچنا ناممکن ہو چکا ہے، تو انہوں نے پکوڑوں کی دکان میں پناہ ڈھونڈ لی ہے۔ اور یہ پکوڑوں کا معاملہ اسلم رئیسانی کے “نسوار والے” مذاق کی طرح نہیں ہے، یہ واقعی پکوڑوں کی دکان ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سردار صاحب اب دبئی جا کر اپنے کاروبار پر توجہ دیں گے اور بلوچستان میں اگر کوئی بڑا مسئلہ یا 25 اگست جیسے واقعات پیش آئیں گے، تو پاکستانی میڈیا میں تبصرے ہوتے رہیں گے۔ سردار صاحب نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی سے استعفیٰ دینا ان کا ذاتی فیصلہ ہے، یعنی ان کی پارٹی سے کوئی چاہے تو اسمبلی کا رکن بن سکتا ہے اور وہاں بھی سردار صاحب کی تعریف و توصیف جاری رہے گی۔ پارٹی کے اندر سردار صاحب کا کوئی حریف نہیں ہوگا، اور کارکنان، چاہے نہ چاہیں، گاہے بگاہے ان کی تعریف کرتے رہیں گے۔

جناب اب دبئی میں بیٹھ کر اپنے پکوڑوں کی دکان چلائیں گے۔ بس سردار صاحب کو دو مسائل پریشان کرتے رہیں گے: ایک 28 مئی کا سانحہ، جو ان کی پیشانی پر ایک بدنما داغ کی مانند ہے، اور دوسرا شفیق مینگل، جنہیں سرکار کی حمایت حاصل ہوگی۔ ان کے خلاف اختر مینگل کیسے مقابلہ کریں گے، یہ ان کا مسئلہ ہے اور ہم تو بس دعاگو ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی خواہش مند ہیں، ان کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹورک متفقہ ہے یا اس کے خیالات کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔