28 جولائی
تحریر: مریم عبداللہ
دی بلوچستان پوسٹ
28 جولائی راجی مچی کیلئے چنا گیا دن بلوچ یکجہتی کی تاریخ میں ضرور ثبت کیا جائے گا۔ اُس دن تمام بلوچ مخلص ہو کر اپنے ایک ہی مقصد کے حصول کیلئے روانہ ہوئے گوکہ راستے میں اُن کو بہت سی قربانیاں دینی پڑیں، بہت سی رکاوٹیں اُن کے راستے کی آڑے بنیں لیکن پھر بھی لوگ خالی ہاتھ گھر واپس نہ آئے۔ لوگوں کی فکر اور نظریئے جاتے وقت میں اور آتے وقت میں بہت فرق کر رہا تھا، وہ اِس سوچ سے بخوبی آگاہ ہوئے کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے بلوچ اب مزید خاموشی اختیار نہیں کر سکتے۔ 28 جولائی کے دن راجی مچی کو کامیاب بنانے کیلئے صرف سوشل ایکٹیویسٹ اور جرنلسٹس یا کمیٹی کے ممبران ہی نہیں بلکہ ہر طبقے کی لوگ شامل تھے وہ بھی جنہوں نے شاید اپنے گھر سے باہر کبھی قدم تک نہ رکھے لیکن راجی مچی کا حصہ بنے۔
انہی میں سے ایک لڑکی سلمہ اپنے خیالوں سے جنگ لڑتی ہوئی گُم سُم کھڑے سوچوں کی سمندر میں سے غوطہ لگا رہی تھی؛ “مجھے کیا پڑی تھی اتنی بھیڑ میں آنے کی، یہ جلسہ جلوس وغیرہ، مجھے تو ہمیشہ اِن چیزوں سے ڈر لگتا تھا لیکن پھر بھی اس بار ڈاکٹر ماہرنگ کے کال پر ہماری سوئی ہوئی ظمیر تھوڑا جھاگ اٹھی۔ میں اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی ہڑتال، جلسہ، دھرنا کہیں بھی شامل نہیں ہوئی یہاں تک کہ اپنے گھر سے بھی دور دراز جگہوں پر کبھی نہیں گئی۔ لیکن اس بار اماں ابا سے مِنّتیں کرکے ان کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر میں نے اجازت مانگ ہی لی۔ گھر سے نکلتے وقت میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس جلسے میں شرکت کرنے کیلئے آئینگے۔ لیکن یہاں آکر پتا چلا جہاں تک میری سوچ جا سکتی ہے یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے”۔
جب راجی مچی کا کاروان اپنے بتائے ہوئے وقت اور جگہ سے آگے بڑھنے لگا تو آگے سے سبھی چھوٹے بڑے علاقوں کے لوگ اس کاروان میں شامل ہو رہے تھے۔ ہر دوسری گاڑی میں منھاج مختار اور میر احمد کے انقلابی گانوں کی آواز آسمان تک گھونج رہی تھی، ڈاکٹر ماہرنگ کی ہنستی ہوئی فوٹو گاڑیوں کے شیشوں اور لہراتے ہوئے پرچموں پہ دیکھ لوگوں کو امید کی کرن نظر آ رہی تھی۔ لوگوں کا جوش و جذبہ اتنا بلند تھا کہ جو بھی اُس دن انہیں دیکھتا یہ محسوس کرتا کہ آج بلوچ اپنے ہر بڑھتے ہوئے قدم کے ساتھ اپنی اور آزادی کے راستے کے فاصلے کو مٹا رہے ہوں۔ تربت سے دشت تک کے لوگ جونہی اضافہ ہوتے جا رہے تھے سلمہ کی گھبراہٹ اتنی ہی زیادہ ہوتی جارہی تھی۔
وہاں سے تھوڑا آگے جا کر جب سارے راستے کھول دیے گئے تو خوشی کے ساتھ ساتھ سلمہ کے من میں ایک ڈر بھی بیٹھ گئی کیونکہ وہاں پر کھڑے ایف سی والوں کو ہنستے مسکراتے ہوئے اس نے دیکھا اور یہ سوچا کہ ہماری خوشی سے یہ لوگ اتنا خوش کیوں ہو رہے ہیں؟ انہی سوچوں کی دنیا میں ڈوبی ہوئی وہ معصوم سی لڑکی جب گاڑی کے بریک لگانے سے اپنی دنیا میں واپس آتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ آگے تلار کے سارے راستے بند کر دیئے گئے ہیں تب اُس طنزیہ ہنسی کے پیچھے کی اصل مقصد کو وہ سمجھ لیتی ہے جو ان کا مذاق اڑانے کے لیے ایف سی والوں نے اپنے چہرے پہ سجائی تھی۔ ایک ہی جھٹکے میں سلمہ نے اپنے کاروان کے ساتھ جیسے قیامت کا سامنا کر لیا۔ کاروان اتنی بڑی تھی کہ پیچھے کھڑے لوگوں کو پتا ہی نہیں چل سکا کہ آگے کیا ہو رہا ہے۔ چند منٹوں کے اندر آگے کے لوگ سسکتی بلکتی پیچھے کی طرف دوڑنے لگے۔ سلمہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ سب ہو کیا رہا ہے، اس نے گاڑی کا کانچ نیچے کرتے ہوئے اپنا سر باہر کی طرف نکالتے ہوئے بھاگتے ہوئے لوگوں سے پوچھا؛
“بھائی آگے کیا ہو رہا ہے لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں اس طرح سے؟”
کسی نے جواب دیا “بہن آگے ایف سی نے روڈ پہ کنٹینر رکھ کر ہمارا راستہ بلاک کر دیا ہے۔۔۔ آنسو گیس پھینک کر فائرنگ کر رہے ہیں کئی لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں اور کچھ گیس کی وجہ سے بیہوش پڑیں ہوئے ہیں اور ہمیں واپس جانے کو کہہ رہے ہیں۔”
آگے سے لوگوں کو دوڑتے کانپتے ہوئے اور اپنے چہروں پر پانی چھڑکتے ہوئے دیکھ کر سلمہ کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہو رہا تھا، خون سے نہلائے ہوئے نوجوانوں کے جسم کو دیکھ کر سلمہ پر جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑی۔لڑکے لڑکیاں جوان بزرگ جو بھی ان کے سامنے آتا لاٹھیوں کے مار کے لپیٹ میں آ جاتا۔ ایک دوسرے سے رائے لیکر لوگوں نے وہیں پر بیٹھ کر دھرنا دینے کا فیصلہ کیا، سب لوگ گاڑیوں سے اتر کر روڈ پر بیٹھنے لگے تو آگے سے ایف سی والوں کا ایک بڑا سا لشکر آ کھڑا ہوا اور پیچھے سے ان کے ہاتھوں جو بھی لڑکا آتا انھیں کسی بھوری کی طرح اپنے گاڑیوں میں پھینک رہے تھے، جب سلمہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو لمبے چوڑے آدمی ہاتھوں میں بندوق اور لاٹھی لیکر منہ چھپائے ہوئے ڈراؤنی آنکھوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ کاروان کے سربراہوں نے ایف سی والوں کے ساتھ مذاکرات بھی کیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا وہ کسی بھی حال میں انہیں جانے نہیں دے رہے تھے۔ ایک ہی جھٹکے میں انہوں نے تھوڑ پھوڑ اور مار پیٹ شروع کر دی جس سے لوگوں نے دھرنا ختم کرنے اور واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ایسا منظر اپنے آنکھوں کے سامنے پاکر سلمہ سوچنے پر مجبور ہو گئی؛
“اے مالک! کیا آپ کو بھی ان بلوچوں پہ رحم نہیں آتا؟؟ کیا اپنا حق مانگنا، امن مانگنا، سکون مانگنا قانونی یا شریعی جرم ہے؟؟ مجھے ان سب کے بارے میں کچھ نہیں پتا اور نا ہی اتنی پڑھی لکھی ہوں کہ سیاست کے بارے میں کوئی رائے دے سکوں لیکن اتنا تو سنا ہے کہ قانون freedom of speech کے حق میں ہے تو پھر بلوچوں کو یہ حق کیوں اختیار نہیں؟ کیونکہ ہم غلام ہیں؟؟ آج چل کر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ہم سچ میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں؛ ہم اپنے ہی سرزمین پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے غیروں کی اجازت مانگنے پر مجبور ہیں، ہم اپنے ہی سرزمین پر اپنے لوگوں کے بیچ اظہار رائے نہیں رک سکتے۔ آئے دن ہم سوشل میڈیا پر بلوچوں کو سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ تربت سے کوئٹہ، کوئٹہ سے اسلام آباد در بہ در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں سپریم کورٹ کے سامنے بیٹھ کر صرف انصاف مانگتے ہیں۔۔۔ کیوں؟؟ کون نہیں چاہتا کہ وہ اپنے گھر پر بیٹھ کر چھین کی سانس لے؟ یوں سوشل میڈیا پر انہیں دیکھ کر ان پر تنقید کرنا مذاق اڑانا بہت آسان ہے لیکن ان کی جگہ پر خود کو رکھ کر سوچنا بہت ہی مشکل۔”
گاڑی کا ہارن بجنے اور ڈرائیور کے چلانے سے سلمہ اپنی سوچوں سے باہر آئی تو گاڑی بھری ہوئی تھی، ڈرائیور کہنے لگا کہ “تم دوسری گاڑی میں بیٹھو اس میں جگہ کی کوئی گنجائش نہیں۔” سلمہ دوسری گاڑی کی طرف بڑھنے لگی تو یہاں بھی ڈرائیور کہنے لگا کہ “کسی کی طبیعت گیس کی وجہ سے بہت ناساز ہے اور اسے جلدی ہسپتال پہنچانا ہے لہذا تم دوسری گاڑی کے ساتھ آ جاؤ۔” جب سلمہ نے اپنا ہوش سنبھالا تو اسے خیال آیا کہ دشت سے صرف یہی دونوں گاڑی آئے تھے جو چلے گئے اب وہ کس کے ساتھ اور کیسے گھر واپس جا سکتی ہے۔
” اے میرے مولا اب میں کیا کروں کہاں جاؤں؟ میں تو یہاں کسی کو پہنچاتی بھی نہیں ہوں اور نا ہی یہاں کے راستوں کا کچھ پتا ہے، کس سے مدد مانگوں؟ پہلی بار گھر سے اتنا دور آئی ہوں اور آکر کھو بھی گئی۔ جب میرے ہمراہ گھر پہنچیں گے تو اماں ابا کیا سوچیں گے کہ ان کی بیٹی کہاں گئی؟ نہیں نہیں، مجھے کیسے بھی کرکے گھر پہنچنا ہے ایسا نا ہو کہ گھر سے نکلنے کی یہ پہلی اور آخری اجازت ہو جو اماں ابا نے دیا، ایسا نا ہو کہ وہ مجھ پر پھر بھروسا نہ کر سکیں۔”
سلمہ انہی کشمکش میں مبتلا تھی کہ پیچھے سے گاڑی میں بیٹھے کسی بزرگ آدمی نے پوچھا ” بیٹی تم کس کے ساتھ ہو یہاں اکیلے کیوں کھڑے ہو؟ جلدی سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہاں سے نکل جاؤ فوج نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، یہاں پر مزید ٹھہرنا مناسب نہیں۔”
سلمہ کی آنکھوں سے جیسے آنسوؤں کی ایک فوارہ پھوٹ گئی وہ کچھ کہنے یا سمجھانے کی حالت میں نہیں تھی، خوف اور گھبراہٹ کے مارے صرف اس کے زبان سے دو بول نکل رہے تھے “میں چھوٹ گئی میرے ساتھی سب چلے گئے” یہ سن کر وہ آدمی گاڑی سے باہر نکل آیا اور سلمہ کو تسلی دینے لگا “گھبراؤ مت بیٹی، تو کیا ہوا وہ چلے گئے، یہاں پر آئے ہوئے ہم سب ایک دوسرے کے ساتھی ہیں ہم تمھیں گھر پہنچا دیں گے” گاڑی میں بیٹھے عورتوں نے جگہ بناتے ہوئے کہا: “آؤ گاڑی میں بیٹھو ہم تمھیں گھر چھوڑ دیں گے۔” سلمہ بہت گھبرائی ہوئی تھی وہ من ہی من میں سوچنے لگی “میں انہیں پہچانتی بھی نہیں ہوں، میں کیسے انجان لوگوں کے ساتھ یوں جا سکتی ہوں؟۔۔۔ نہیں نہیں، اور کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے پیچھے سے ایف سی فائرنگ کرکے سب کو بھگا رہا ہے چاروں طرف سے ہمیں گھیرے ہوئے ہیں، جو بھی ہو مجھے ان کے ساتھ پہلے یہاں سے نکلنا ہے۔”
قافلہ اتنا بڑا تھا کہ اسے نکلنے اور سڑک کو خالی کرنے میں بہت ٹائم لگا، لگ بھگ ایک دو گھنٹے بعد وہ گاڑی میں بیٹھ کر سب روانہ ہو گئے۔ سلمہ والی گاڑی سب سے پیچھے تھی کیونکہ وہ پوری ذمہ داری سے سب لوگوں کو وہاں سے نکالنا چاہتے تھے۔
شام ڈھلنے کو تھی قدرت نے آسمان پر سرخ اور زرد رنگوں کی نقاشی بنائی ہوئی تھی، سورج پہاڑوں کے درمیان جیسے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ سلمہ نے گاڑی کا کانچ نیچے کرکے ایک ٹھنڈی اور لمبی سانس لی اور سارا منظر دیکھ کر محسوس کر رہی تھی، جولائی کے گرم مہینے میں اتنی ٹھنڈی ہوا کا چلنا یہ بھی ہمارے زمین پر کسی نعمت سے کم تھوڑی ہے؟
تلار سے دشت تک کا راستہ پہاڑوں کے دامن سے ہو کر نکلتا ہے، اس راستے سے جاتے ہوئے جگہ جگہ پر ایف سی کے گاڑی اور بختربند کھڑے نظر آئے اور ایف سی والے خود بندوقوں کے ساتھ پیدل اِدھر اُدھر کے جائزے لے رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر شاید جو بھی لوگ اُس دن راجی مچی کیلئے گئے تھے ان کے من میں یہ خیال تو ضرور آیا ہوگا جو سلمہ سوچ رہی تھی؛ “کاش ان غیروں کی جگہ آج ہمارے سرمچار اپنے سرزمین پر کھڑے ہوتے تو ڈر کے بجائے آج ہم خود کو بَہ حفاظت محسوس کرتے اگر یہ سرزمین ان قبضہ گیروں کے بجائے اس زمین کے اصل وارثوں کے اختیار میں ہوتا تو یقیناً غیروں کو آنکھ اٹھا کر بھی اس زمین کو دیکھنے کی اجازت نا دیتے، ہمارے محافظ دن رات ہماری اور زمین کی تحفظ کیلئے موت سے لڑتے ہیں اور یہ بزدل قبضہ گیر اور دلار چند پیسوں کیلئے اپنا ظمیر بیچ کر ہماری زندگیوں کا اور اس زمین کا سودا کرتے ہیں۔۔۔ اگر آج فوجی ہمارے راستے کی رکاوٹ نہ بنتے تو شاید اس وقت ہم گوادر پہنچ کر ڈاکٹر ماہرنگ کی تقریر سن رہے ہوتے”۔ سوچتے سوچتے سلمہ کی لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی؛ “ارے پاگل اگر یہ سب ہوتا تو ریلی نکالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی نا ہی کوئی اپنے سکھ چھین سے دستبردار ہونے اور سڑکوں پہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوتا، سب بلوچ آج خوشی سے اپنی زندگی گزار رہے ہوتے”۔ گاڑی میں بیٹھے بزرگ آدمی نے تسلی کے ساتھ کہا: “آج یہ سب دیکھ کر شاید لوگوں کے سمجھ میں آگیا ہوگا کہ ہم غیروں کے ہاتھوں اپنی ہی سرزمین پر کس طرح غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، ایک شہر سے دوسری شہر تک جانے کی رکاوٹ بننے کیلئے دشمن نے نا جانے کیسے کیسے ہتھکنڈے اپنائے، آنسو گیس فائرنگ لاٹھی چارج سارے ظلم کرکے لوگوں کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو تھوڑ پھوڑ کر ناکارہ بنا دیا اور پیچھے سے پتا نہیں کتنے ساتھیوں کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔” دوسرا آدمی جس نے چادر سر پر لپیٹ کر اپنا منہ ڈھکا ہوا تھا اور مزاحیہ انداز کے تھے کہنے لگے: “اچھا ہوا جو ہمیں جانے نہیں دیا گیا ورنہ اتنی بڑی تعداد کو گوادر میں بیٹھنے کو جگہ ہی نہیں ملتی۔ یہ کہہ کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر سنجیدگی سے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا: “لیکن جو بھی ہو یہ راجی مچی آج ایک کامیاب راجی مچی بن گئی۔ تربت سے ایک بہت بڑی کاروان ہم نے نکالی، راجی مچی کا مقصد ہی سب بلوچوں کو ایک ساتھ لانے کا تھا جوکہ ہم ساتھ لائے ہم نے ایک دوسرے کے درد کو سمجھا ہمیں اپنی غلامی کا احساس ہوا اور یہ بھی احساس ہوا کہ ہمیں ہمیشہ یونہی ساتھ مل کر دشمن کا سامنا کرنا ہے اور ایک دن ان زنجیروں کو تھوڑ کر اپنی سرزمین پر ایک آزادانہ زندگی گزارنی ہے۔ جو کچھ ہم انہیں گوادر لے جاکر ڈاکٹر کے تقریروں سے سمجھانے والے تھے وہ سب انہوں نے آج خود محسوس کیا ہے۔ ہمارے لیے اچھی بات تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو کبھی گھر سے باہر نہیں نکلے جو سیاست سے کوسوں دور ہیں آج ان سب نے اس کاروان میں شرکت کرکے ہماری مچی کو کامیاب بنایا۔” یہ سن کر سلمہ من ہی من میں جیسے ہوا میں اڑنے لگی “ہاں سچ ہی تو کہہ رہے ہیں مجھ جیسے لوگ جو کبھی گھر سے باہر ہی نہیں نکلے وہ اتنی دور راجی مچی کیلئے گیس اور گولیوں کے ساتھ موت کا منظر اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھ کر واپس گھر جا رہے ہیں۔”
ان دونوں کے مباحثے سن کر سلمہ کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کمیٹی کے ممبران ہیں تبھی تو اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود یہ تسلی بخش انداز میں گفتگو کر رہے تھے۔ کچھ دیر گاڑی میں ایک خاموشی چھا گئی، جب دشت کی طرف گاڑی مڑنے لگا تو وہ مزاحیہ شخص خاموشی تھوڑ کر پوچھنے لگا؛ “تمھیں اپنے گھر کا راستہ پتا تو ہے نا؟”
“جی! مجھے پتا ہے آپ کُنچتی بازار کی طرف لے جائیں پھر میں آپ کو بتاتی جاؤں گی،” سلمہ نے جواب دیا۔
لیکن ہم کبھی دشت نہیں آئے اس لیے یہاں کے راستوں کا ہمیں کچھ نہیں پتا،” آدمی بولنے لگا۔
یہ سن کر سلمہ پھر سے گھبراہٹ کا شکار ہو گئی، باہر چاروں طرف سے تاریکی چھائی ہوئی تھی، سلمہ آگے آگے کا کہہ کر گاڑی چلتی ہی جا رہی تھی۔
“لگتا ہے ہم بہت دور نکل آئے، اچھا تم نے بتایا نہیں کیا نام ہے تمھارا اور گاڑی کیسے چھوٹ گئی؟” آدمی پوچھنے لگا۔
سلمہ خوف کے مارے لرزتے ہوئے ہونٹوں سے کہنے لگا “یاسر”، اچانک سب پھوٹ پھوٹ کر ہنسنے لگے تب سلمہ کو اندازہ ہو گیا کہ اس نے سوال کا بےجا جواب دیا ہے اور پھر سے ہونٹوں کو زور دیتے ہوئے کہا “نہیں۔۔ مطلب مجھے لگا آپ اس مریض کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جس کی طبیعت ناساز کہہ کر مجھے گاڑی میں بیٹھنے نہیں دیا گیا۔ میں، میں سلمہ ہوں۔”
شاید گاڑی میں بیٹھے سبھی لوگوں کو سلمہ کی گھبراہٹ کا علم تھا اسی لیے راستے میں رک کر انہوں نے سلمہ کے گھر کا پتہ معلوم کرایا، جب گاڑی حرکت کرنے لگا تو سلمہ نے اپنے گھر کے راستے کو پہچان لیا اور ان عورتوں سے گھر کے اندر تک آنے کی التجا کی
“آپ گھر کے اندر تک مجھے چھوڑ آئیں اور میرے گھر والوں کو بھی سمجھائیں کہ میں نے اتنی دیر کیوں لگائی مجھے اکیلے جانے میں بہت ڈر لگ رہا ہے پتا نہیں وہ کیا سوچ رہے ہونگے کہ ان کی بیٹی کہاں اور کس کے ساتھ ہوگی”
وہ ایک دوسرے کے ساتھ اشاروں میں ہامی بھرتے ہوئے سلمہ کے ساتھ اندر تک گئے، گھر والے پریشان ہوکر بےصبری سے سلمہ کی راہ دیکھ رہے تھے انہوں نے گھر والوں کو تسلی کے ساتھ سمجھایا کہ سلمہ جیسی کئی بہادر لڑکیوں نے آج ہمت کرکے اپنے حق کیلئے گھر سے باہر قدم رکھا اور آج راجی مچی کو کامیاب بنایا اور اسے کامیاب بنانے میں صرف ہمارا یا آپ کی بیٹی کا ہی نہیں بلکہ ان سب گھر والوں کا بھی ہاتھ ہے جنہوں نے اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں ہمارے ساتھ آنے کی اجازت دی۔”
سلمہ کو چھوڑ کر وہ اس اطمینان کے ساتھ تربت کی طرف روانہ ہو گئے کہ دشمن جیت کر بھی ہار گیا اور ہم ہار کر بھی جیت گئے ہماری کاروان نے ایک کامیاب راجی مچی بنائی ہمارا مقصد پورا ہو گیا، ہمارا ساتھ اور ہماری یکجہتی کو دیکھ کر دشمن ہم سے ڈرنے لگا جس سے وہ بوکھلاہٹ کے شکار ہو گئے، قابض ریاست نے بلوچ راجی مچی کو ناکام بنانے کیلئے اپنی پوری طاقت کا استعمال کیا اور بندوق کے زور سے بلوچوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن پھر بھی بلوچ قوم متحد ہو کر ریاستی مظالم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا رہا اور یقیناً آگے بھی مضبوطی سے متحد ہو کر کھڑا رہے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔