‏شہید رضا جہانگیر اور امداد کی قربانیاں بلوچ سیاسی جہدکاروں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں – چیئرمین درپشان بلوچ

122

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزشین آزاد کے چیئرمین درپشان بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‏شہید رضا جہانگیر اور امداد بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں بطور سرخیل رہنماء اپنی سیاسی ذمہ داریوں کو سرانجام دے رہے تھے جب انہیں قابض پاکستانی فوج کی جانب سے آج سے 11 سال پہلے تربت میں نشانہ بناکر شہید کر دیا گیا گوکہ شہید جہانگیر اور امداد و ان کے درجنوں ساتھیوں کو قابض فورسز کی جانب سے شہید کیا گیا لیکن ان کا نظریہ، قومی فکر اور جدوجہد آج بھی منظم انداز میں بلوچ جہدکاروں کی جانب سے جاری ہے۔ شہید رضا جہانگیر اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی رہنماء امداد کو تربت میں شہید امداد بلوچ کے گھر میں نشانہ بناکر شہید کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ شہید رضا جہانگیر اور امداد بلوچ نے ان کٹھن اور گھمبیر حالات میں بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا جب بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر سیاسی کارکنان کی لاشیں پھینک دی جا رہی تھی لیکن انہوں نے بلوچ قومی جہد میں سیاسی سرگرمیوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں ہرحالت میں جاری رکھنے پر محنت کی اور آخری سانس تک بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قومی جہد کیلئے سیاسی موبلائیزیشن پر کام کر رہے تھے۔ رضا جہانگیر اور امداد محنتی سیاسی جہدکاروں کے ساتھ انتہائی ذہین اور بہترین سیاسی موبلائزر تھے جنہوں نے کم مدت میں تنظیمی زمہ داریوں کو کیچ اور آواران بھر میں پھیلاتے ہوئے بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کی راہیں ہموار کیں۔

‏چیئرمین بی ایس او نے کہا کہ کسی بھی قومی تحریک کو عوام کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے ایسے سیاسی و فکری رہنماؤں کی ضرورت ہوتی ہے جو بلا کسی خوف و خطر قومی مقصد کو لیکر عوام تک رسائی حاصل کریں اور اپنے کردار و علمی و فکری بصیرت سے عوام کو ان کی غلامی کا احساس دلائیں۔ بلوچ سیاست میں ایسے عظیم کرداروں کی فہرست بہت لمبی ہے جنہوں نے بلوچستان بھر میں سیاسی سرگرمیاں کرکے عام عوام کو قومی آزادی کی جدوجہد کی اہمیت سے آگاہ کیا اور ریاست کے قبضے و اس کے نقصانات کے حوالے سے ان کی تربیت کی۔ جس کی وجہ سے آج بلوچ فرزند قومی جدوجہد سے آگاہ اور اس میں اپنی شرکت یقینی بنا رہے ہیں بلوچستان کے لوگوں میں اور بلخصوص نوجوانوں میں یہ قومی و فکری شعور رضا جہانگیر اور امداد بجیر جیسے سیاسی رہنماؤں کی مرہون منت ہے جنہوں نے ذاتی زندگی کو پس پشت ڈال کر قومی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر فکری اور شعوری بنیادوں پر نوجوانوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ یقیناً سیاسی نظریات رکھنا اور عوام کے اندر ان کی پرچار کا حق ہر مہذب معاشرے میں سب کو حاصل ہے لیکن بلوچستان جیسے مقبوضہ علاقے میں جہاں قابض ریاست تشدد اور جبر سے اپنا قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے وہاں قومی فکر رکھنے والا ہر نوجوان ریاست کیلئے خطرہ ہوتا ہے۔ رضا جہانگیر کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ تنظیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کیلئے کیچ کے دورے پر تھا جب ریاست نے موقع کا فائدہ اٹھا کر شہید امداد بجیر کے گھر پر حملہ کرتے ہوئے شہید رضا جہانگیر اور ان کے نظریاتی ساتھی امداد بجیر کو شہید کیا۔ گوکہ قدآورت شخصیات ہونے کی حیثیت سے ان کی شہادت تنظیم و تحریک کیلئے نقصاندہ رہا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ شہادت اور قربانیوں سے کوئی بھی تحریک کمزور نہیں ہوا ہے بلکہ شہادتوں سے تحریکیں نظریاتی طور پر مضبوط ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‏شہید رضا جہانگیر کی شہادت سے گوکہ تنظیم کو وقتی طور پر نقصان پہنچا لیکن جس نظریہ اور فکر کی آبیاری شہید رضا جہانگیر، امداد بجیر اور ان کے فکری و نظریاتی ساتھیوں نے رکھی تھی آج بلوچستان کا بچہ بچہ اس فکر و نظریے کی آبیاری کر رہی ہے اور جوق در جوق قومی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیکر ریاست کیلئے بلوچستان کی سرزمین کو تنگ کر رہے ہیں۔ شہیدوں کے فکری اور نظریاتی وارث ان کی قربانیوں اور جدوجہد کو کسی بھی حالت میں رائیگان جانے نہیں دینگے اور قومی آزادی تک اس سفر اور کاروان کو مزید منظم انداز میں جاری رکھیں گے۔