‏بلوچ قومی سیاست کی نفسیات – زرّین بلوچ

421

‏بلوچ قومی سیاست کی نفسیات

تحریر: زرّین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏پاکستان کی قبضہ گیریت کے بعد جب بلوچ لیڈران سیاست کے مداریں طے کرنے کی کوشش میں کثیر القومی سیاست سے جڑ گئے، تو وہ بھول گئے کہ ون یونٹ کے ٹوٹنے کے بعد سیاست کا رخ کس طرف موڑنا ہے۔ صحیح اور غلط کے تصور کو بعد میں دیکھتے ہیں، لیکن جب 18 سال بعد ہوش سنبھالا تو سوال یہ تھا کہ بلوچ قومی سیاست سے جڑا ادارہ کہاں ہے؟ آیا ادارہ تھا یا نہیں، یہ الگ بات ہے، لیکن یہ سوال ضرور موجود تھا۔اس وقت ایک ادارہ تھا جو بلوچ سیاست کا دعویدار تھا، جسے بی ایس او کہا جاتا تھا۔ جب کوئی اور ادارہ نہیں تھا تو بی ایس او نے قومی ادارے کی شکل اختیار کرلی۔ یہ الگ بات ہے کہ بی ایس او خود کبھی قومی فیصلہ لینے سے قاصر تھا، لیکن دوسرے ادارے نہ ہونے کے سبب بی ایس او اسی سوچ کے ساتھ پروان چڑھتا گیا کہ وہ قومی ادارہ ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی نے بلوچ اسٹوڈنٹس کی سیاست کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے مواقع دیے، لیکن بلوچوں نے تصویر کا ایک رخ دیکھ کر بھول گئے تھے کہ شیخ مجیب الرحمان عوامی لیگ کی قیادت کر رہا تھا۔ اسی سوچ نے ہر آنے والے بی ایس او کے ممبران اور لیڈران کو متاثر کیا۔ بی ایس او اتنا گلوریفائی ہوگیا کہ کسی نے اس تصور کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کی یا سب کو یقین ہوگیا کہ واقعی بی ایس او قومی ماس ادارہ ہے۔

بی ایس او نے اپنے پہلے ہی چھوٹے اقدامات سے ظاہر کر دیا تھا کہ وہ ایک اسٹوڈنٹس ادارہ ہے، جیسے کہ بیس یا تیس اسٹوڈنٹس ایک جگہ بیٹھ کر اپنی پہلی دیوان میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے۔ دراصل یہی عمل اسٹوڈنٹس رویے کی عکاسی کر رہا تھا۔ حقیقتاً، بی ایس او ایک درسگاہ تھا اور ہے، تو لازمی بات تھی کہ مستقبل کے قومی لیڈران کو اسی درسگاہ سے گزرنا تھا۔ جو بھی گزرا، وہ اسی گرینڈ بیانیے کو لے کر گزرا اور اس میں بھی بی ایس او کو گلوریفائی کرنے کی عادت ڈھل گئی۔ جب بہت عرصہ گزرا، تو جو بھی بی ایس او میں شامل ہوتا تھا، وہ اسی سوچ کے ساتھ آتا تھا کہ ہم تو قومی تحریک کے ماس آرگنائزیشن ہیں۔جب ہم لٹریچر اٹھا کر دیکھتے ہیں ہرجگہ بی ایس او کی اتحاد اور ٹوٹ پھوٹ یا اسکی سیاست کا زکر،بی ایس او کواکیسویں صدی کے پنچمی تحریکی مرحلے کا باب القائد گردانا۔

اسی طرح 1984 کے سیاست کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا، بی ایس او کے اتحاد نے بلوچ سیاست کو منظم کیا، اور پھر بدقسمتی سے بی ایس او ٹوٹ گیا۔ اگر سیاسی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو شہید فدا بلوچ شہادت اور ان کی پارٹی کی منظم شکل اختیار نہ کرنا اور ناکامی کا شکار ہونا، بی ایس او کے ٹوٹنے سے زیادہ بڑا سانحہ تھا کیونکہ قومی سیاست کے ادارجاتی مراحل طے ہو رہے تھے جو نہ ہو پائے۔ چونکہ بلوچ سیاسی لٹریچر میں بی ایس او غالب ہے، اس لیے فدا بلوچ کی پارٹی کی ناکامی کو جگہ نہ مل سکی۔ بقول حکیم بلوچ، بڑے عمر کے لوگ خود کو بی ایس او کا ممبر کہتے تھے۔ دراصل یہی سوچ بی ایس او کے گرینڈ بیانیے کی عکاسی کرتی آرہی ہے۔اسٹوڈنٹس کچھ وقت بی ایس او میں رہ کر جب فارغ ہوتے اور کسی ادارے میں شامل ہوتے تو ان کے رویے میں طالب علم والی عادتیں غالب رہتیں۔

بی ایس او کی طرح پارٹیاں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں اس کی سب سے بڑی مثال 90 کی دہائی میں دیکھی گئی۔ مفاد پرستی اپنی جگہ، لیکن وہی مفاد پرستی بھی ایک جگہ نہیں رہ سکی، کیونکہ یہی روایتیں بی ایس او سے سیکھ چکی تھیں۔ 2009 میں بی این ایم کا ٹوٹنا اور الگ ادارہ بنانا اسی روایت کی کڑی ہے۔فیصلہ سازی سے لے کر سیاست کے میدان کا تعین بھی اسی انداز سے ہوتا جیسے ایک اسٹوڈنٹس لیڈر کرتا ہے۔ غلام محمد بلوچ کی شہادت کے بعد اسٹوڈنٹس ادارہ اور پارٹی میں زیادہ فرق نہیں رہ گیا۔ بی ایس او کبھی بھی قومی فیصلہ سازی کا اہل نہیں تھا اور بی این ایم میں بھی کچھ بہتری نہیں تھی۔ جلسہ جلوس کرنے کو پارٹی سیاست کا نام دینا تو بی ایس او آزاد بھی وہی کر رہا تھا۔ پھر پارٹی اور اسٹوڈنٹس ادارے میں فرق کیا رہ گیا؟ اس لیے بلوچ سیاسی پارٹیاں بھی اسٹوڈنٹس ادارے کی طرح فنکشن کرنے لگیں۔

اگر بلوچستان کے گراؤنڈ پر نظر دوڑائی جائے تو سب کے سب بی ایس او جیسی حرکات کر رہے ہیں، کیونکہ ماس سیاست میں شامل نوجوان شعوری یا لاشعوری بی ایس او کو آئیڈیل مان کر چل رہے تھے اور ہیں۔ ان کے لیے اول و آخر بی ایس او تھا۔بدقسمتی سے بلوچ سیاسی لیڈران ایک ادارہ منظم کرنے میں ناکام رہے، چاہے وہ ملٹری ہو یا نان ملٹری، جو بی ایس او کے قومی ماس ادارے والے اس گرینڈ بیانیے کو روکتا (زبانی نہیں، عملی طور پر روک لگانا)۔ جب بلوچ سیاست میں نظر دوڑائی جاتی ہے تو ہر جگہ اسٹوڈنٹس سیاست کی بو آتی ہے۔ بیان بازی کرتے ہیں، ہم قومی اتحاد کرنے جا رہے ہیں، اور پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو چمٹا رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر بڑی بڑی باتوں کو برداشت نہ کرنے کی عادتیں، جب برداشت کرتے ہیں تو جی حضوری تک پہنچ جاتے ہیں۔ رویوں میں انقلابی رویہ کمی ہو جاتی ہے، جیسے کہ آزادی پسند پارٹیوں میں ہے۔اسی طرح کے رویے جب بی ایس او کی سیاست میں کچھ لوگ پٹنے نہیں آتے تھے، انہیں سائیڈ کیا جاتا تھا۔ یہی طریقہ کار پارٹیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آزادی پسند اداروں میں چھوٹے چھوٹے رازوں سے لے کر بڑے بڑے رازوں کو جذباتی انداز میں اگلنا، جیسے کہ مسلح اداروں میں پلان کمانڈر اپنے ساتھی کمانڈر سے اس بات پر ناراض ہیں، یہ بات ہر عام و خاص کی زبان پر ہےتنقید کے تصور کو ذاتی انا کا مسئلہ بنانا، جیسے کہ یہی تنقید بی این ایم پارٹی لائن کے غلام محمد کی شہادت کے بعد کمزور ہوگئی۔ تنقید قابلِ بحث ہے، لیکن ہمارے یہاں یہ تنقید انا کا مسئلہ بن جاتی ہے، جیسے کہ اسٹوڈنٹس سیاست میں ہوتا ہے۔ جی حضوری کو سیاسی برداشت کا نام دینا، اگر پلان لیڈر نے غلطی کی ہے تو اس پر کھل کر اپنے ساتھیوں سے بات کرنا واجب القتل کے نزدیک پہنچ جاتا ہے۔ یا تو لیڈر کے پیٹھ پیچھے بات کرتے ہیں اور سامنے کہنے سے ڈرتے ہیں، یا تنقید کے نام پر مختلف اوقات میں اپنے فکری ساتھیوں کی پگڑی اچھالتے ہیں۔ اختلاف رائے اور تنقید کو سطحی پوزیشن میں لا کھڑا کرتے ہیں، جس سے تنقید اور اختلاف شرما جاتے ہیں۔یہ سب خامیاں پوری بی ایس او میں نہیں ہوتیں، بلکہ بی ایس او میں ان خامیوں کا مسلسل ہونا لازمی امر ہے۔ کیونکہ بی ایس او میں ہر سال چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے اسٹوڈنٹس سے لے کر یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس آ کر شامل ہو جاتے ہیں، جہاں یہ ساری کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

لازمی نہیں کہ بی ایس او سے ہر فارغ شدہ ممبر ان خامیوں سے آزاد ہو، کیونکہ یہ ایک تربیتی عمل ہے جو ہر ممبر کے فردی پوزیشن پر منحصر ہوتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ تب ابھرتا ہے جب بی ایس او ہی سیاست کی اٹل پوزیشن بن جاتی ہے جہاں سیاست کی آخری حدیں ملتی ہیں۔ تو یہ یقینی بات ہے کہ فارغ التحصیل ممبران کبھی بھی خود کو سیاست میں ایک قدم آگے کی سوچ نہیں رکھتے۔ مکمل ہونے کی سوچ رکھ کر آگے بڑھتے ہیں کہ ہم تو بی ایس او کی تربیت سے نکل کر آئے ہیں اور ہم تو سیاست کے گرو ہیں۔یہ اس لیے اس طرح سمجھتے ہیں کیونکہ بی ایس او اسی طرح آئیڈلائز کیا جا چکا ہے اور ہم آسانی سے ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہم طلبہ سیاست کی درسگاہ سے نکل رہے ہیں،، جس سے ان میں چھوٹی کمزوریاں یا کبھی کبھار بڑی کمزوریاں ہو سکتی ہیں۔ بی ایس او کے ممبران کی آئیڈلائز کرنے کی وجہ سے یہ کمزوریاں آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں، جیسے کہ وہ بی ایس او کا فلاں لیڈر رہا ہے۔ اس لیے بی ایس او سے فارغ شدہ سابقہ کیڈرز کی بیس سالہ تاریخ دیکھیں تو ہر ادارے میں اسٹوڈنٹس جیسے رویے غالب رہے ہیں۔ بلوچستان میں آزادی پسند یا غیر آزادی پسند ماس پارٹی (کچھ بڑے بھوڑوں کو چھوڑ دیں)، چھوٹے چھوٹے اداروں سے لے کر بڑے اداروں تک، کام کرنے کے انداز سے لے کر لوگوں سے ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، سونے تک سب اسٹوڈنٹس سیاست سے جڑے ہوئے رویے ہیں (شہید غلام محمد کی سیاست الگ بات ہے، اور بی وائی سی لیڈرشپ کے رویوں کو سمجھنا قبل از وقت ہے لیکن ظاہری صورت میں عوامی نظر آتے ہیں)۔ایک بار پھر دہرانا ضروری ہے کہ بی ایس او درسگاہ ہے، اسٹوڈنٹس کو پولش کرنے کا پلیٹ فارم ہے، لیکن بی ایس او کی اسی پوزیشن کو بڑھا کر جب قومی ماس ادارے سے جوڑیں گے تو خامی خودبخود ابھرے گی۔ فارغ شدہ کوئی بھی ممبر خود کو سیاست کا ارسطو سمجھے گا۔ بی ایس او کی حقیقی پیداوار وہی ہوگا جو یہ سمجھے گا کہ بی ایس او سے فارغ ہونا سیاست کا ایک قدم تھا، آگے سیاست میں بہت کچھ سیکھنے کو باقی ہے۔

‏نوٹ: تحریر کا مقصد کسی ادارہ کو ہٹ کرنا نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریکی سوچ کوایک بارپھر نظردوڑانی چائیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ وہ سولات،اختلاف اور تنقید الگ بات ہے ہمارے ہاں لیڈراں سے لیکر ممبران تک قومی تحریکی فیصلہ سازی میں کس حدتک اہل ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔