‎سی پی جے کا صحافی عثمان خان کی ریاستی حراسگی کی مذمت

162

صحافیوں کی تحفظ کرنے کیلئے کام کرنے والی تنظیم سی پی جے نے پولیس کی جانب سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی عثمان خان کے گھر پر بار بار چھاپے مارنے اور انہیں روپوشی پر مجبور کرنے کی مذمت کی ہے۔

صحافی تنظیم کے مطابق بلوچستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف مظاہروں کی کوریج دینے، پرامن مظاہرین پر ریاستی کریک ڈاؤن کو اجاگر کرنے پر ریاستی اداروں کی جانب تین بار صحافی کے گھر پر چھاپہ مار کر انھیں حراست میں لینے کی کوشش کی گئی-

سی پی جے نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحافی عثمان خان کو حراست میں لینے کی اقدامات کو فوری طور پر روکتے ہوئے میڈیا کو کسی خوف یا گرفتاری کے بغیر حالات حاضرہ پر رپورٹنگ کرنے کی اجازت دینی چاہیے اور پاکستانی حکام کو ملک بھر میں آزاد آوازوں کے تحفظ پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں پریس پر حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا ہے، اس سال اب تک سات صحافیوں کے اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔

صحافی تنظیم کا کہنا تھا یوٹیوب اور فیس بک پر زاویہ نیوز چینل چلانے والے عثمان خان بلوچستان میں مظاہرین کے خلاف فوج کے کریک ڈاؤن کی رپورٹنگ کے پاداش میں حراسگی کا سامنا کررہے ہیں، 28 جولائی کو گوادر میں ہونے والا یہ احتجاج جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف تھا اور اس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں اور فورسز کی فائرنگ سے تین مظاہرین ہلاک ہوئے تھیں-

سی پی جی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صحافی عثمان خان نے نامعلوم مقام سے تنظیم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وردی اور سادہ لباس میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکام کے ان کی گرفتاری کے منصوبے سے واقف تھے کیونکہ فوجی حکام نے مظاہرین سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی اور انکے والد کو پاکستان فورسز نے بتایا تھا کہ عثمان کو مستونگ دھرنے سے واپس کوئٹہ بلا لو۔

تنظیم نے اس حوالے سے کوئٹہ پولیس کمشنر کو بھی رابطہ کیا تاکہ ان سے اس معاملے میں سوالات کئے جاسکے تاہم انہوں نے ہمارے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے والی “سی پی جے” امریکی شہر نیویارک میں قائم ایک آزاد غیر منافع بخش تنظیم، عالمی سطح پر صحافت کی آزادی کو فروغ دینے اور صحافیوں کے حقوق کے دفاع کے لیے کام کرتی ہے۔

انہوں نے پاکستان میں پریس کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کو نمایا کرتے ہوئے عثمان خان جیسے صحافیوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا ہے جو بلوچستان جیسے خطوں میں انسانی حقوق کے مسائل کی رپورٹنگ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔