بلوچ نیشنل موومنٹ کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پارٹی یوکے چیپٹر کے زیراہتمام لندن میں ٹریفلگر اسکوائر سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ احتجاجی ریلی میں بی این ایم یوکے چیپٹر کے کارکنان، سندھی، بلوچ کمیونٹی سمیت خواتین اور بچوں نے سینکڑوں کی تعداد میں شرکت کی، احتجاجی ریلی کا آغاز ٹریفلگر اسکوائر سے ہوا جو مختلف راستوں سے ہوئے کامن ویلتھ آفس پہنچی جہاں شرکاء نے بھرپور احتجاج کیا۔
انہوں نے کہاکہ احتجاج کا مقصد پاکستانی فورسز کی طرف سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بلوچ راجی مچی یعنی بلوچ قومی اجتماع کے دوران بہیمانہ تشدد دوران گوادر، مستونگ اور نوشکی میں ہونے والی جابرانہ کارروائیاں جس میں تین شرکاء کے قتل، درجنوں کے زخمی ہونے جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں بی وائی سی کے کارکنوں کی جبری گمشدگی اور گوادر کی ناکہ بندی سمیت شاہراؤں کی بندش کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔
مظاہرے کے دوران شرکاء نے گوادر کا محاصرہ ختم کرنے اور ریاستی دہشت گردی کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ احتجاجی ریلی کے شرکاء نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر پاکستانی فورسز کے مظالم کے خلاف اور بلوچ راجی مچی کے حق میں نعرے درج تھے۔ اس موقع پر مظاہرین کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے۔
ریلی کے منتظمین نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز نے گوادر، مستونگ اور نوشکے میں پرامن اور نہتے عوام پر جو مظالم ڈھائے ہیں وہ ناقابلِ برداشت ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ گوادر کے محاصرے کو فوری طور پر ختم کیا جائے اس سے پہلے کہ کوئی انسانی المیہ جنم لے۔
احتجاجی مظاہرے سے بی این ایم کے مرکزی جونیر جوائنٹ سیکریٹری حسن دوست بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے گوادر سمیت بلوچستان بھر میں پاکستانی فورسز کی طرف سے جاری کریک ڈاؤن اور گوادر کے محاصرے کی مزمت کی، انھوں نے بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں انسانیت سوز مظالم کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان کو جوابدہ ٹھہرائیں، انٹرنیٹ اور سڑکوں کی بندش ریاست کی خام خیالی قرار دیتے ہوئے کہاکہ ایسے اقدام سے ریاست اپنے مظالم کو چھپا نہیں سکتی۔
بی این ایم یوکے چیپٹر کے صدر منظور بلوچ نے مظاہرے سے خطاب کے دوران بلوچ خواتین کے قائدانہ کردار اور بلوچ قومی حقوق کی خاطر جدوجہد کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بلوچ کی خوش قسمتی ہے کہ بلوچ مائیں اور بہنیں آج بلوچستان کی جنگ دیدہ دلیری کے ساتھ لڑ رہی ہیں اور اپنے بھائیوں کے ہم قدم ہیں۔انھوں نے کہا کہ خطے میں بلوچ خواتین کی سیاسی شعور اور جدوجہد مظلوم اقوام کےلیے مشعل راہ ہیں۔
خاتون کارکن گل رئیسانی نے احتجاج کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہ آج ہم یہاں اس لیے جمع ہیں تاکہ بلوچ راجی مچی اور اس مچی کے دوران ریاستی مظالم کے شکار افراد سے اظہار یکجہتی کرسکیں اور مہذب دنیا کو یہ باور کراسکیں کہ بلوچ اپنی سرزمین نہ ہی قومی جدوجہد سے دستبردار ہوگی اور نہ ہی سی پیک جیسے استحصالی منصوبوں سے قبول کرئے گی. گل رئیسانی نے گوادر کی ناکہ بندی نیٹ اور اشیاء خوردنوش کی ترسیل کو روکنے کی ریاستی بوکلاہٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے حربوں سے عوام کی زبان بندی ممکن نہیں۔
خاتون مقرر کائنات بلوچ نے ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ راجی مچی میں بلوچ خواتین کی شرکت کو تاریخی عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ خواتین آج جس مقام پر کھڑی ہیں یہ ان تمام جہدکاروں کی قربانیوں کی بدولت ہے جنھوں نے بے مثال قربانیاں دے کر اس جدوجہد میں بلوچ خواتین پر اعتماد کیا اور انھیں اس تحریک کا حصہ بنایا. کائنات بلوچ نے مزید کہا کہ یہ وقت خاموش رہنے کا بلکہ اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر استقامت کے جدوجہد کرنے کا ہے۔