گوادر دھرنا جاری، نوشکی میں پاکستانی فورسز کی فائرنگ کے خلاف ہڑتال

317

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بلوچ راجی مچی دھرنے کی صورت میں ساتویں روز جاری ہے ، جبکہ شہر بدستور فوج کے محاصرے اور مواصلاتی نظام بند ہے ۔

دھرنا منتظمین کا کہنا ہے کہ راجی مچی کے خلاف ظالمانہ کریک ڈاؤن کے بعد بھی پدی زر کے مقام میں دھرنا جاری ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ایک طرف جاری مذاکرات کے باوجود، ریاست بلوچستان بھر میں پرامن مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کو تیز کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں شہریوں میں شہادتوں اور زخمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سفاکانہ کارروائیاں نسل کشی کے خلاف پرامن بلوچ تحریک کو دبانے کے ریاستی ارادے کو ظاہر کرتی ہیں۔ تاہم، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ عوام بنیادی انسانی حقوق اور وقار کے لیے اپنی لڑائی ترک کر دیں گے تو وہ غلط ہیں۔ ہم اس فاشسٹ ریاست کے پرتشدد اور جابرانہ ہتھکنڈوں کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے۔

وہاں نوشکی میں جمعہ کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گوادر راجی مچی کے حمایت میں لوگوں کی بڑی تعداد نے ریلی نکالی ، جس پر پاکستانی فوج نے براہ راست فائرنگ کی۔

فائرنگ سے ایک نوجوان ہمدان جاں بحق جبکہ تین شدید زخمی ہو گئے ۔

فائرنگ کے بعد نوشکی میں حالات کشیدہ ہوگئے اور انٹرنیٹ کو بند کردیا گیا ۔

رات گئے اطلاعات کے مطابق مظاہرے پر فائرنگ کے خلاف مظاہرین کا قومی شاہراہ این 40 اسٹیشن قلم چوک پر دھرنا جاری رہا این 40 پر ٹریفک معطل ہوگئی، گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئی۔ جب کہ شہر میں ہڑتال کے باعث کاروباری مراکز بند ہیں ۔

جمعے کے روز کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے “بلوچ راجی مچی” پر پولیس تشدد، حراستوں اور قافلوں پر تشدد کے خلاف کراچی میں ریلی نکال رہے تھے۔ ریلی کے شرکاء نے آرٹس کونسل کراچی سے پریس کلب تک مارچ کرنے کی تیاریاں کررہے تھے کہ پولیس نے ان پر دھاواں بول دیا اور ان پر لاٹھی چارج کی گئی۔

تاہم گرفتاریوں کے بعد بھی مظاہرین کی بڑی تعداد نے آرٹس کونسل کے قریب دھرنا دیا۔

کراچی میں پولیس گردی کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان کی جانب جاری پریس ریلیز میں ترجمان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے اور یہ حق آئین فراہم کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ آئین کی پاسداری خود حکومت نہیں کررہی ہے عوام کو جمہوری حق سے نہ صرف محروم کر رہی ہے بلکہ سنگین تشدد سے تمام تر روایات و اقدار کو پامال کرنے میں مصروف عمل ہے۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ احتجاجی ریلی میں خواتین بچے اور بزرگ بھی شامل تھے ان کو سڑکوں پر گھیسٹا گیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ظلم و ناانصافی کی انتہا کو مزید چھوتے ہوئے خواتین اور نوجوانوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ نام نہاد جمہوری نظام کی آمرانہ انداز طرز حکومت ہے۔ جو کسی طور پر قبول نہیں۔

بیان میں کہاگیا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور سیاسی مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جاتا ہے۔ طاقت کے استعمال ماضی میں بھی نقصان کا باعث تھا اور آج بھی۔انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسلہ انسانی حقوق سے منسلک ہے اس لیے لاپتہ افراد کو آئین کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جائے اور آمرانہ رویہ کو ختم کیا جائے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران گرفتار کی گئی خواتین کارکنان کو پولیس نے رہا کردیا ہے تاہم مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک تمام افراد رہا نہیں کیے جائیں گے تب تک ان کا دھرنا جاری رہے گا۔

بی وائی سی نے کہا ہے کہ 18 نوجوانوں کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا اور وہ تاحال پولیس کی حراست میں ہیں۔