کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ جاری

81

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5552 دن ہوگئے۔ اظہار بالگتر سے سیاسی سماجی کارکن عبد اللہ بلوچ، محمد ایوب بلوچ، سبزل بلوچ نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ تمام بلوچ قومی بقا لاپتہ افراد کی بازیابی کے پر امن جد جہد میں عملی طور پر شریک ہو کر گلی کوچوں میں چھپنا چھوڑ دیں، حالات ٹھیک ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا لوگ جان لیں کہ حالات مزید خراب ہونگے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچستان کے جو موجودہ حالات ہیں پاکستانی حاکم جو کچھ بلوچوں کے ساتھ کر رہے ہیں یہ ظلم کی انتہا ہے ان مظالم اور بمباری کو خاموشی سے دیکھنے والے ہوش سے کام لیں اور اپنی اس خاموشی کو توڑ کر پرامن جدجہد میں بلوچوں کی صفحوں میں شامل ہو جائیں اور جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے قافلے کو رواں دواں رکھیں کیونکہ یہ پرامن جدوجہد تمام بلوچوں کی ہے اگرچہ یہ پُر امن جد جہد میں کسی کو دعوت نہیں دی جاتی بلکہ آدمی کو خود اس میں کودنا پڑتا ہے۔

انکا کہنا تھا میں تمام خاموش بلوچوں کو آواز دیتا ہوں کہ وہ بلوچ قومی بقاء کی اس پُر امن جد جہد میں شریک ہو جائیں اور بلوچوں کے حقوق کی جنگ بڑا ہے ہیں اس لیے دیگر بلوچوں کو جو اس وقت بھی خاموش ہیں غلامی کے حصار سے نکل کر پر امن جدجہد کرنے والے بلوچوں کی صفوں میں شامل ہو جائیں جو لوگ ادھر اُدھر گلیوں میں چھپ رہے ہیں اور اس خوش فہمی میں بتلا ہیں کہ حالات ٹھیک ہو جائیں پکستان ٹھیک ہوجائے گا ان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ حالات ٹھیک نہیں بلکہ مزید خراب ہونگے۔

ماما قدیر نے آخر میں کہا اس لیے تمام بلوچوں کو چاہیے کہ وہ بلوچ قومی بقاء کی جنگ جاری ہے شریک ہو جائیں تاکہ اس راہ میں جن بلوچوں نے قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں نہ جائیں پاکستانی اداروں نے ایک سازش کے طور پر بلوچ ڈیتھ اسکواڈر بنا کر پیرامن جد جہد کرنے والے بلوچوں کے مد مقابل کر دیا ہے تاکہ دونوں اطراف سے محکوم اقوام کے افراد کی جانوں کا ضیاع ہو اس لیے ایک محکوم اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس سازش کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے-