کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5545 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر تفتان سے تاجر برادری نصیب اللہ بلوچ ، عرفان بلوچ اور دیگر نے آکر ا ظہار یکجتی کی۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ظلم جبر کے خلاف اٹھی حق کی آواز کو قتل غارت ظلم جبر سے نہ دبایا جا سکا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکا ہمیشہ قابض ظالم نے مظلوم پرامن جہد کاروں کے خلاف تشدد جبر کے ساتھ اُنھیں غلام رکھنے کے لیے اپنے تمام تر حد اور وسائل کا استعمال کیا ہے عین یہی صورت حال روز اول سے بلوچ کے ساتھ بھی چلا آرہا ہے 1948 کو پاکستان نے اپنی لاؤ لشکر کے ساتھ جبری قبضہ کے بعد سے آج تک اُس غلامی کو تقویت دینے کے لئے فوجی آپریشنوں بلوچ نسل کشی مسخ لاشیں تیز تمام حربے استعمال کیے اور کر رہے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دشمن بھی نت نئی حربوں کے ساتھ بلوچ جہد کے خلاف سرگرم عمل ہے بلوچ طلبا سیاسی ورکروں ڈاکٹروں نیز ہر مکاتب فکر کے قتل عام ٹارگٹ کلنگ کے بعد ریاست نے بلوچ خواتین کی آواز کو دبانے کے لیے پرانے شوشہ حربوں کو نئے انداز میں پیش کیا. جسکی واضح مثال ریاستی خفیہ اداروں سی ٹی ڈی کا گھروں پر حملہ مارنے کی دھمکی دینا۔ اور بحیثیت ایک غلام بلوچ بیٹی کے اُنھوں نے اپنی ہتھیار قلم وزانت کو حق اور سچائی کیلئے بلند کیا اور اہل سقراط اور صاکی روایات کو تھامے رکھا تو دشمن قابض فورسز اور رد انقابی قوتوں کو گوارہ نہیں ہوا پھر وہی پرانا طریقہ تشدد جبر دھمکایاں مگر بلوچ فرزندوں کی طرح اس بہین ماں نے بھی قلم اور سچائی کا سر نگوں ہونے نہیں دیا اور ریاستی دھمکیوں اور تشدد کو ضمیر پر حاوی ہونے نہیں دیا جو بلوچ خواتین کی پُر امن جد جہد میں شمولیت اور فعال کردار کی اہم مثال ہے
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ چونکہ یہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو قانون کی عمل دار کے ذریعے یقینی بتایا جائے ورنہ انسان جبر استبداد کے خلاف خود بغاوت کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ چونکہ یہ ضروری ہے کہ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑیا جائے ۔ چونکہ اقوام متحدہ رکن قوموں نے منشور میں بنیادی انسانی حقوق انسانی شخصیت کے احترام اور قدر نیز مردو اور عورتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں اپنے اعتقاد کی تو شیق کی ہے