کوئٹہ : بلوچ نسل کشی کی علامتی تختی ‘نامعلوم افراد’ نے توڑ دی گئی

288

بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی جانب سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گذشتہ روز بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنے کے مقام پر نصب کی گئی بلوچ نسل کشی کی علامتی” تختی” کو رات گئے توڑ دیا گیا۔

تختی توڑنے کے عمل کو جبر کی ایک مایوس کن کارروائی قرار دیتے ہوئے بی وائی سی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنے کے مقام پر رکھی گئی “بلوچ نسل کشی کی علامت” کو ریاستی اداروں نے رات کے آخری پہر میں جان بوجھ کر توڑ دیا۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ یادگار، جس نے نسل کشی اور بلوچ قوم کے جاری مصائب سے محروم ہزاروں بلوچ جانوں کو خراج تحسین پیش کیا، اس دردناک تاریخ کو مٹانے کی کوشش میں تباہ کیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس علامت کی تباہی صرف ایک یادگار پر حملہ نہیں بلکہ بلوچ قوم کی اجتماعی یاد کی توہین ہے۔ ہماری تاریخ کو مٹانے کی اس بزدلانہ کوشش کے باوجود ہم انصاف کے حصول میں ڈٹے رہیں گے۔ ایسے اقدامات سے بلوچ قوم کے جذبے کو توڑا نہیں جا سکتا۔ ہم دوبارہ تعمیر کریں گے، ہم یاد رکھیں گے، اور ہم اپنے لوگوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی پہچان اور احتساب کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔

واضع رہے کہ گذشتہ روز کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے احتجاجی دھرنے کے دوران بلوچ نسل کشی کی علامتی تختی کو نصب کرکے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔ تین پنکھڑیوں پر مشتمل یہ یادگار ان ہزاروں بلوچوں کی کہانیوں کی علامت ہے جو نسل کشی کا شکار ہوئے اور اپنے وطن کے اندر بلوچ عوام کے مصائب کو برداشت کیا۔

یہ علامت نہ صرف بلوچ کمیونٹی کو درپیش مظالم کی یاددہانی کے طور پر کام کرتی ہے بلکہ عالمی برادری سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو تسلیم کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک کال کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔ اس یادگار کے لیے جگہ کے طور پر یونیورسٹی کا انتخاب آنے والی نسلوں کو اپنے آباؤ اجداد کی جدوجہد اور قربانیوں سے آگاہ کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

تقریب میں مقررین نے اپنی جانیں گنوانے والوں کی یاد کو محفوظ رکھنے کی اہمیت اور ان گھناؤنے جرائم کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے مسلسل وکالت کی ضرورت پر زور دیا۔ اس اجتماع نے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، بشمول کارکن، طلباء، اور ریاستی جبر کا شکار، سبھی اپنی شناخت اور احتساب کے مطالبے میں متحد ہو گئے۔

یہ یادگار بلوچ جذبے کی مضبوطی کا ثبوت ہے اور یہ یاد دہانی ہے کہ بلوچ عوام کے لیے انصاف اور وقار کی جدوجہد جاری ہے۔