چند دنوں کی زندگی ۔ مزار بلوچ

186

چند دنوں کی زندگی

تحریر: مزار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ 

ہم ایک ایسے پر گھٹن خوف اندھیروں سے بھری معاشرے میں رہ رہے ہیں، جہاں پیدائش سے موت تک ہمیں صرف اور صرف ڈرا کر محبوس غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پیدائش کے بعد معمولی ہوش سنبھالنے پر سب سے پہلے ہمیں مذہبی پیشواؤں، پادری پنڈت مُلا راہب کے زریعے ڈرایا جاتا ہے یعنی اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو دردناک سزا ویسا نہیں کیا تو آگ کی بھٹی، زندہ کھال کھینچنے کی سزا
خدا تعالیٰ کو ہمارے معصوم ذہنوں میں ظالم جابر بات بات پر سزا دینے والا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

صبح اٹھتے ہی سزاؤں کی فہرست شروع ہوکر رات سونے تک سزائیں ہی سزائیں( اور اکثر خواب میں بھی انہی سفاکانہ سزاؤں کا تصور آرام سے سونے نہیں دیتی )اس کے بعد گھٹن زدہ ماحول کے زیر اثر والدین شعور کے کمی کی وجہ سے سے بچے کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ کبھی بات بے بات تشدد ، کبھی جنات، کتے بلی دوسرے جانوروں سے خوفزدہ کیا جاتا ہے جیسے ہی تعلیم کا دور شروع ہوتا ہے تو دینی دنیاوی تعلیمی اداروں میں احساس کمتری کے شکار ذہنی مریض جنونی اساتذہ تشدد کے زریعے ریاستی رائج کردہ فرسودہ من گھڑت نصاب کو ہمارے ذہنوں میں ٹھونسنے کے لیے پورا زور لگاتے ہیں۔ جن کے لئیے ہمارے ذہن بالکل تیار نہیں ہوتے جس سے ہمارے ذہن انتشار کا شکار ہوتے ہیں ہم یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ میرا مذہب فرقہ مسلک سہی ہے یا دوسرے کا۔

میں جو دنیاوی تعلیم حاصل کررہا ہوں یہی حقیقت ہے یا دوسرے مہذب دنیا کی مجھے جو تاریخ پڑھایا جارہا ہے کیا یہی میرا تاریخ ہے یا مجھ پر مسلط شدہ کسی غاصب کی ہے۔ دوسرے اقوام کے مسائل ان کے ساتھ ہونے والے ظلم جبر یا زوال عروج نظر ثانی پھر کبھی.
(“” یہاں میں اپنے بلوچ قوم اور بلوچستان کے جس پر قبضہ گیریت ظلم و خوف کے وہ کراہیتناک کالے چادر پھیلے ہوئے ہیں کہ ان کے مقابلے میں دوسرے ممالک اور اقوام کے ساتھ ہونے والے مظالم معمولی لگتے ہیں “)

جیسے ہی ہم جوانی میں داخل ہوتے ہیں دس پندرہ سال کے رٹائے ہوئے زندگی کے تمام قصے کہانیوں میں ہمیں تضاد لگتا ہے یعنی کہ زندگی کے پندرہ سال بچپن سے لے کر جوانی تک خوف بے شعوری تنگ دستی غلامانہ ذہنیت مذہبی منافرت انسان دشمنی ماحول دشمنی میں بے مقصد گزر گئے لیکن جب ہم کالج یا دوسرے تعلیمی ادارے میں داخل ہوتے ہیں تو نوے فیصد اپنے اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کے لیے خود ہی پر انحصار کرنا پڑتا ہے یعنی عملی زندگی کا جنگ لڑنے کے لیے پہلا قدم یہی ہوتا ہے جب ہم کالج کے کلاسز، ہاسٹل اور تعلیمی منیجمنٹ کو دیکھتے ہیں تو ہر طرف ہم پر عیاں ہوتا جاتا ہے کہ ہمیں جو دس پندرہ سال بنیادی دینی و دنیاوی تعلیم دی گئی ہے۔ وہ تو صرف اور صرف ایک طاقتور طبقے کے مفادات قبضہ گیریت کو دوام بخشنے کے لیے خود ساختہ تاریخ رٹے رٹائے جھوٹے قصے من گھڑت مذہبی کہانیاں یعنی ہر طرح سے ہمارے آنکھوں پر کالی پٹی باندھ کر ہمارے ننھے ذہنوں کو کند کرکے انسانیت اور ہمارے خود کے قومی و نسلی بقاء سے بے بہرہ کر دیا گیا ہے یہی وقت ہوتا ہے کہ ایک نوجوان اگر صیح قومی و اجتماعی فیصلہ لیتا ہے تو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ انسانیت اور اپنے قومی بقاء تشخص اور اپنے سرزمین پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کرتا ہے جو کہ ایک مخلص وطن پرست بلوچ کا فطری عمل ہوتا ہے۔

صبح روڈ پر نکلتے ہی چیک پوسٹوں پر کھڑے وردی والے درندوں کے ہاتھوں اپنے قوم کی تذلیل بچوں عورتوں کے ساتھ نازیبا زبان کا استعمال ان کے بلوچی لباس پر ہاتھ ڈالنا انہیں ذہنی ٹارچر کرنا نوجوانوں کو روڈوں پر لٹا کر تشدد کرنا بوڑھے بزرگ بلوچوں کو منہ پر تھپڑ اور ان کے مونچھیں کاٹ کر ان کا مذاق اڑانا، مزدوری کے لئے جانے والے بلوچ ڈرائیوروں سے بھتے کے نام پر غنڈہ ٹیکس وصول کرنا ان کو پیاس سے مار کر انکے گاڑیاں جلانا بوڑھے باپ کے سہارے کو رات کی تاریکی میں لاپتہ کرکے ان کے لاشوں کی بے حرمتی و ٹکڑے ٹکڑے کرکے ويرانوں میں پھینکنا ماؤں بہنوں کی دل چیرنے والے آہ وبکا ان سب حقائق کو دیکھنے اور محسوس کرنے کے بعد شاید ہی کوئی بےحس بلوچ نوجوان چپ بیٹھ سکے۔

ان تمام مظالم کو دیکھ کر ہر باضمیر بلوچ اپنے قومی بقا کو خود پر فرض سمجھتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح اپنے سرزمین کے جہد سے منسلک ہوکر اپنا کردار نبھاتا ہے جو باشعور ہونے کا ثبوت ہوتا ہے اور اپنے قوم کا فخر ہوتا ہے.

اس کے برعکس افسوس تب ہوتا ہے کے جب کوئی بلوچ نوجوان تعلیم سے دوری قابض کے پھیلائے ہوئے قبائلی جھگڑے منشیات مذہبی عدم رواداری بے تکے شوق مظلوم قوم اور اپنوں سے بیگانگی یا چند روپوں کے لیے قابض ریاست کا مہرہ بن کے اپنے ہی قوم و بھائی کے جان و کاروبار کے خلاف مخبری کرنا بے ہودہ شوق کے نتیجے میں کسی روڈ ایکسیڈنٹ گلے میں پندھا ڈال کر مرنا۔ حالیہ واقعات و حادثات کو دیکھ کر سوچیں کہ اگر کوئی کام کریں تو اس سے ہمارے مظلوم قوم کو فائدہ ہو۔

موت سب پر برحق ہے لیکن اگر مرنا ہے تو کیوں نہ اپنے قوم و سرزمین کے لئے مزاحمت میں- مریں تاکہ ہمارے والدین دوست و احباب سمیت قوم ہمارے موت پر نازاں ہوں۔ کسی مخبر منشیات فروش چوری میں مرنے کی بجائے مزاحمتکار کے شہادت کی موت مریں
آج باشعور بلوچ نوجوان شہر پہاڑ ہر محاذ پر دشمن کے خلاف برسرپیکار ہیں ان کے بوجھِ گراں کو اٹھانے میں ان کی مدد و ہمراہ داری کریں ہم جانی مالی طور پر قوم کے کسی کام آئیں۔ جس طرح آج بلوچ مزاحمت کار جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کو اُنہی کے مورچوں میں شکست دے رہے ہیں۔

بلوچ فدائین اپنے سب سے عزیز رشتے ماں باپ بہن بھائی اولاد کو چھوڑ کر ہمارے کل ایک عظیم قومی مقصد کے لئے خود کو قربان کر رہے ہیں۔ موت ہر جگہ آنی ہے تو کسی ظالم کے خوف سے کیوں روزانہ مریں یا موٹرسائیکل گاڑی کے حادثے بیمار مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی بار قومی مقصد کے لیے مریں۔ ہم عہد کریں کہ ہم استاد اسلم ماماشمس کے پند و محنت بلوچ فدائین ان کے مزاحمت کار ساتھیوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

اس سے پہلے کہ ہم ہمارا بھائی بیٹا دشمن کے ہاتھوں لاپتہ ہوجائیں اپنے گھر تک آگ کے پہنچنے سے پہلے اٹھ کھڑے ہوں یکجا ہوکر قابض کے خلاف عملی میدان میں اتریں. بلوچ والدین کو بھی چاہیے کہ چوری مخبری منشیات پیسہ کی بجائے اپنے بچوں میں تعلیم کے ساتھ قومی شعور کو اجاگر کریں۔ خود غرض بن کر کچھ دن زیادہ جینے سے بہتر ہے دو دن کم جئیں لیکن اپنے قوم و سرزمین کے لئے مر کر ہمیشہ کے لیے امر ہوجائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔