”پیش مرگہ“ کا اگلہ مرحلہ
تحریر: انور ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
دو اہم بیانات دیکھنے کو ملے ہیں، تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے تجویز پیش کی ہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں چار ماہ کے لئے ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جو آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار ہو۔ ان انتخابات کے نتیجے میں جو بھی پارٹی جیتے اقتدار اسے منتقل کردیا جائے۔ محمود خان نے کہاکہ 9مئی کے واقعات کے تناظر میں عمران خان کے خلاف کارروائیاں بند کی جائیں کیونکہ آج تک بڑے بڑے واقعات کی نہ تو انکوائری ہوئی اور نہ ہی کسی کے خلاف کارروائی۔ انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا واقعہ 16 دسمبر 1971 کو سقوط مشرقی پاکستان ہے لیکن کسی ذمہ دار کا تعین کیا گیا اور نہ ہی کسی کو سزا ہوئی۔ دوسرا واقعہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اس کے بعد بے نظیر کا دن دہاڑے قتل ہے۔ جب اتنے بڑے واقعقات کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو عمران خان کو سنگل آﺅٹ کرکے ان کے خلاف انتقامی کارروائی کیوں ہورہی ہے جبکہ 8 فروری کے انتخابات میں ان کی جماعت نے کامیابی حاصل کی تھی۔
دوسرا بیان مولانا فضل الرحمان کا ہے انہوں نے مردان میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف ملک اور معیشت چلانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ سب سے قریبی دوست چین نے بھی کہا ہے کہ سیکورٹی اور امن و امان کو ٹھیک کئے بغیر پاکستان کی معیشت درست نہیں ہوسکتی۔ دوسری جانب حکومت کے پاس لفاظی اور بھڑک بازی کے سوا اپنے دفاع کے لئے کچھ بھی نہیں۔ اگر ملک روزانہ کی بنیاد پر جاری ہونے والے بیانات سے چلتے تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ ایک مایوس کن بات جماعت اسلامی کے راولپنڈی کے ناکام دھرنے کا بغیر اعلان کے خاتمہ ہے۔ جماعت اسلامی اسلام آباد اس لئے گئی تھی کہ بجلی کے ہوش ربا بلوں کی قیمت کم کروائہیں لیکن اس کے بجائے دھرنے کے آخری روز حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کردیا۔ دھرنے کی ناکامی کی وجوہات تو جماعت اسلامی ہی جانے لیکن اس بے مقصد پریکٹس کا جماعت اسلامی کی ساکھ پر نہایت بڑے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جماعت کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ حکومت کو خدشہ تھا کہ تحریک انصاف کہیں دھرنا نہ دے اس لئے اس کے توڑ کے لئے جماعت سے دھرنا دلوادیا۔ مذاکرات کا ڈرامہ رچایا گیا اور جونہی تسلی ہوئی کہ تحریک انصاف دھرنے دینے کی پوزیشن میں نہیں تو چٹکی بجا کر جماعت کا دھرنا ختم کروایا گیا یعنی مستقبل قریب میں بجلی کے عذاب سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
بلوچ یک جہتی کمیٹی نے گوادر، تربت اور پنجگور میں اس علاقے کی تاریخ کے بڑے اور کامیاب جلسوں کا انعقاد کیا ہے۔ جس کے بعد ماہ رنگ بلوچ کوئٹہ اور نوشکی کی طرف رواں دواں ہے۔ راستے میں ناگ گریشہ اور قلات میں کمیٹی رہنماﺅں کا والہانہ خیر مقدم کیا گیا۔ گوادر میں راجی مچی کو روکنے کے لئے ریاست نے جس طرح رکاوٹیں ڈالیں اور طاقت کا استعمال کیا اس کی نظیر بھی موجود نہیں۔ اس کے باوجود گوادر میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور انہون نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ یک جہتی کمیٹی کے اجتماعات کے دوران ایک نیا فنانما یہ دیکھنے میں آیا کہ لوگوں نے بلوچ سرزمین کی حفاظت کے لئے قربانی دینے کے اجتماعی حلف اٹھائے۔ اس سے پہلے فدائی حملوں کے کئی واقعات ہوئے جو اس علاقے میں کبھی نہیں ہوئے تھے۔ جانوں کی قربانی دینے کا اجتماعی سوگند اٹھانا پیش مرگہ کی طرح کا انوکھا واقعہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہزاروں لاکھوں لوگ آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ادھر حکومت ٹھوس اقدامات کی بجائے عامیانہ اور روایتی طریقہ کار اختیار کررہی ہے۔ اگر یک جہتی کی قیادت ملک دشمن اور غدار ہے تو ان کے خلاف عدالتوں میں یہ الزام ثابت کیا جائے ورنہ یہ غداری اور حب الوطنی کا کھیل بند کیا جائے۔ چونکہ ہمارے حکمران اور حکمران طبقہ اس خطہ آبادی اور اس کی سرزمین اس کے جغرافیہ اور تاریخ سے واقف نہےں ہیں۔ اس لئے وہ مزاحیہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر پنجاب سے یہ رائے سامنے آئی کہ گوادر کی آبادی مکرانیوں پر مشتمل ہے اس لئے بلوچ اس پر قبضہ کرنے گئے ہیں۔ کسی نے لکھا ہے کہ گوادر پاکستان نے روپے دے کر خریدا ہے اس لئے گوادر ایک وفاقی علاقہ ہے اور اس کا تعلق بلوچوں سے نہیں ہے۔کسی کو معلوم نہیں کہ جب بلوچستان کے حکمرانوں نے گوادر عارضی وقت کے لئے مسقط کے ایک شہزادے کو دیا تھا تو بھی یہاں پر بلوچوں کی آبادی تھی، کیا گوادر کے ساتھ اس آبادی کو بھی ہمارے حکمرانوں نے خرید لیا تھا اور یہ کہ وہاں کے لوگ ان حکمرانوں کے زر خرید غلام ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں اور اہل پنجاب کے دانشوروں تک کو یہ پتہ نہیں کہ بلوچستان کے لوگوں کی تحریک کیا ہے اور جدوجہد کرنے کامقصد کیا ہے۔ جہاں تک مسنگ پرسنز کا تعلق ہے تو یہ مجموعی مسئلہ کا ایک حصہ ہے اور جاری انسانی المیہ کا تسلسل ہے۔ ن لیگ کے ایک سابق وزیر خواجہ سعد رفیق نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بلوچستان میں انقلاب دیکھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں کے قوم پرست اپنا اثرو رسوخ کھو بیٹھے ہیں جو سرکاری سوشل ایکٹیوسٹ ہیں وہ ماہ رنگ کے خلاف زبردست مہم چلارہے ہیں اور انہیں غلط ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ماہ رنگ اس وقت ایک شخصیت نہیں ”گلزمین“ ہے۔ علامتی مادر ہے اس لئے لوگ دیوانہ وار اس کی طرف اس لئے دوڑے جارہے ہیں کہ وہ گلزمین کے تحفظ کی سوگند اٹھا کر جدوجہد کررہی ہیں۔ اگر کل ماہ رنگ بھی سابق قوم پرست قیادت کی طرح اپنا راستہ چھوڑ دیں تو کوئی ساتھ نہیں دے گا اور وہ اکیلی رہ جائیں گی۔ ماہ رنگ ایک نہتی اور کمزور لڑکی ہے لیکن شیرنی اس لئے بنی ہوئی ہے کہ ساری کی ساری بلوچ گلزمین کے لوگ اس کے نظریہ کے ساتھ ہیں اس سے حکمرانوں کو سبق سیکھنا چاہئے کہ بلوچستان کے لوگ ایسے منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے جس کا مقصد ڈیموگرافک تبدیلی لانا ہو۔ ساحل و وسائل کو غیروں کے تصرف میں دینا ہو ۔ اگرچہ حکمرانوں کو زعم ہے کہ وہ چند لاکھ لوگوں پر قابو پاکر اپنے منصوبوں کو کامیاب بنائیں گے لیکن انہیں معلوم نہیں کہ انہیں کس طرح کی پرامن مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پرامن مزاحمت عہد حاضر کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اس ہتھیار کے سوا اہل بلوچستان کے پاس اور کچھ نہیں۔
بعض نادان ایکٹیوسٹ اور بالادست طبقات کے نمائندے جو اظہار خیال کررہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل کے منصوبے کیا ہیں۔ یعنی گوادر کو وفاقی علاقہ قرار دینا، معدنی وسائل جو کہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کی ملکیت ہیں انہیں وفاق کے تصرف میں لینا جیسا کہ ریکوڈک، سینڈک، کارونجھر، تھر کول، وزیرستان کے معدنی وسائل اور گلگت بلتستان کے وسائل ہیں۔ اگر یہ منصوبے چل پڑے تو صوبوں کو رضاکارانہ طور پر ان سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ جو کچھ ہورہا ہے سب پر واضح ہے۔ زیرو پوائنٹ سے لے کر جیونی تک ساحل وفاق اپنی تحویل میں لے چکا ہے۔ حالانکہ ان از روئے آئین سمندر فیڈرل سبجیکٹ ہے جبکہ ساحل پر واقع زمینیں صوبوں کی ملکیت ہیں ان زمینوں پر قبضہ غیر قانونی ہے۔ آبادی کا انخلاءجبر کا نتیجہ تو ہوسکتا ہے آئینی طور پر درست نہیں۔
بلوچستان کی تحریک کے راستے میں جو رکاوٹیں ہیں وہ نام نہاد جعلی الیکشنوں کے ذریعے بننے والے عوامی نمائندے ہیں جن کا کوئی نظریہ نہیں۔ ان کا ضمیر تو کب کا مردہ ہوچکا۔ بنگال میں تو ایک میر جعفر تھا جس کی غداری کی وجہ سے انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن بلوچستان میں چھوٹے بڑے میر جعفروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان میر جعفروں کو صرف اسکیمیں، ترقیاتی فنڈز اور اپنی ملازمتیں درکار ہیں چاہے وہ پولیس حوالدار کا کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ حالیہ عوامی اپرائزنگ ایک عوامی انقلاب کی بنیاد ہے جسے بزور طاقت کچل دیا جائے تو بھی اس کا غیر حصول نتیجہ نکلے گا۔ اگر یہ کامیاب ہوجائے تو بھی اس کا نتیجہ تاریخی ہوگا ۔ ہاں اگر یہ انقلاب ہے تو اس کا نتیجہ آنے میں وقت لگ سکتا ہے اور یہ کب اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا اس کے بارے میں وقت کا تعین کرنا مشکل ہے۔
لیکن صورتحال غیر معمولی ہے۔ لوگوںکا جوش و خروش قابل دیدنی ہے۔ بلوچستان میں ایسی یک جہتی اتنا اتفاق اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ لہٰذا یہ ایک انقلاب کی بنیاد ہے۔ اسے خون ریزی اور قتل و غارت گری کے ذریعے روکنا بہت مشکل ہے۔ صرف حقائق تسلیم کرکے کچھ بات بن سکتی ہے کیونکہ اس وقت ایک جنون اور دیوانگی کا عالم ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔