پیاسہ ترقی
تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
گزشتہ چھ دنوں سے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کو بلوچستان اور دنیا بھر سے منقطع کردیا گیا ہے۔ گوادر میں انٹرنیٹ پر بندش، سیلولر سروسز پر بندش، رفت ؤ آمد پر بندش لگاکر پورے شہر کو فوجی حصار میں لیکر بلوچ راجی مُچی کی آواز کو بلوچستان اور دنیا تک پہنچنے سے روکنے کی خاطر جن حربوں اور ہتھکنڈوں کو استعمال کیا گیا وہ بدستور جاری ہیں۔
گوار جسے چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور (بلین ڈالرز پروجیکٹ) کے سر کا تاج یا جھومر کہا جاتاہے وہاں کے لوگ آج پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں۔ گوادر سے آمدہ اطلاعات یہ ہیں کہ لوگوں کے گھروں میں پینے تک کا پانی ختم ہونے کو ہے۔ گوادر جوکہ ایک انتہائی اسٹریجک لوکیشن پر قائم ساحلی شہر ہے، جس کے حوالے سے پاکستان اور چین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہاں کی طرز زندگی بینالاقوامی ہوگی، اگر اس شہر کے لوگ پانی کے بوند کو ترستے ہوں، یا وہاں پینے کا پانی خریدنا پڑجائے تو آپ کو سمجھنا چاہیئے کہ اربوں ڈالرز خرچ کیے جانے کا جو لوگ راگ الاپ رہے ہیں تو وہ اربوں ڈالرز کم از کم مقامی آبادی کیلئے خرچ نہیں کیے جارہے ہیں۔ گوادر میں دکانوں کو بند کرنے، پانی سمیت دیگر زندگی کی سہولیات کو متاثر کرنے کا مقصد گوادر میں گزشتہ ایک ہفتے سے جاری بلوچ قومی اجتماع (بلوچ راجی مُچی) اور بعد ازاں بلوچ قومی دھرنے میں تبدیل ہونے والے قومی اجتماع کے شرکاء پر دباؤ ڈالنے سمیت گوادر کے عوام کو بلوچ راجی مُچی کی مہمان نوازی پر سزا دینا ہے۔
بلوچ راجی مُچی بلوچستان کے باسیوں کا ایک ایسا اجتماع ہونا تھا جہاں وہ دور دراز علاقوں سے آکراپنا دکھ درد ایک دوسرے سے بیان کرتے، اپنی درد اور دکھ پر آنسو بہاتے اور پھر خود ہی ایک دوسرے کو دلاسہ دیکر واپس لوٹ جاتے۔ مگر چونکہ پاکستان اور چین بلوچوں کو بلوچستان کے باسیوں کو گوادر کے مقامی باشندوں کو اس سرزمین کا مالک تو کُجا یہاں پر انکے وجود کو بھی برداشت نہیں کرسکتے اس لیے انہوں نے اس اجتماع کو روکنے اور ناکام بنانے کی غرض سے اپنے پوری قوت لگاکر یہ گمان کرلیا کہ لوگوں کے اس سمندر کو روکا جاسکتا ہے۔ جب انہیں اس حقیقت کا اندازہ ہوا کہ لوگوں کے سمندر کو روکنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوچکا ہے تو انہوں نے گوادر میں موجود بلوچ راجی مُچی کے ارد گرد کرفیو نافذ کرکے بلوچ راجی مُچی کے شرکاء اور گوادر کے عوام پر کربلا جیسے حالات برپا کرنے کی شروعات کردی۔
بلوچستان کے ساحلی شہر میں اگر واقعتاً اس قدر ترقی ہورہی ہوتی یا عوام واقعی جس قدر پاکستانی سرکار میڈیا پر پنجاب سے جھوٹے فوٹیج چلاکر جھوٹی خوشحالی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اس قدر لوگ خوشحال اور آباد ہوتے اور گوادر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ تو آج گوادر پانی کے بوند کو نہ ترستا، گوادر کے ترقی یافتہ لوگ بنیادی زندگی کی ضروریات کی چیزوں کی خاطر بارڈر کے اس پار دنیا بھر کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ایران کے مقبوضہ بلوچستان سے تجارتی سامان پر انحصار نہ کرتے۔ اگر گوادر کے نام پر اکٹھا کئے گئے ان اربوں ڈالرز میں سے ایک ذرہ برابر بھی خرچہ گوادر کی حقیقی ترقی پر کیا گیا ہوتا تو آج گوادر میں دنیا کے بہترین ہسپتال اور صحت کے سہولیات میسر ہوتے، جبکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس دکھائی دیتے ہیں گوادر میں نہ صرف ہسپتال اور نظام صحت تباہ حالی کا شکار ہے بلکہ وہاں بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے، اور کسی بھی بڑے طبی مسئلے سے نمٹنے کی خاطر لوگوں کو اکثر کراچی جیسے بڑے شہروں کی جانب رخ کرنا پڑتا ہے۔
تاریخ انسانی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمیشہ ہی یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قابض مقبوضہ سرزمین پر طاقت کے زور پر عوام کو دبانے کی کوشش میں وہ تمام انسانیت سوز بربریت کرتا ہے جو اس کے مطابق محکوم ؤ مقبوضہ قوم کی خاطر ضروری اور ان کی ترقی سے جُڑے ہوتے ہیں۔ جسکی مثال اگر بلوچستان کے حوالے دیکھے جائیں تو ان میں سر فہرست بلوچ سرزمین پر بلوچوں کے منشاء کے بغیر قبضہ، بلوچ قومی حکومت کو ختم کرکے بلوچ ریاست کی آزاد حیثیت کو چھین کر اسے پاکستان میں ضم کرنا، بلوچ لیڈران پر غداری کے مقدمات، بلوچستان میں فوجی آپریشنز کے دوران ہزاروں کی تعداد میں عام بلوچوں کا قتل عام، ہزاروں افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا، خواتین کی عصمت دری کرنا انہیں قیدی بناکر ان پر جنسی تشدد کرنا، بلوچ وسائل کی لوٹ مار، بلوچ ساحل کو فروخت کرنے سمیت بلوچستان میں قومی سیاست پر قدغن جیسے مظالم شامل ہیں، جنہیں پنجاب اور پاکستان بلوچوں کی ترقی قرار دیکر بلوچوں کو ترقی مخالف، امن مخالف، پاکستان مخالف، پنجاب مخالف، فوج مخالف، آئی ایس آئی ؤ ایم آئی مخالف قرار دیکر انکی نسل کشی کو جائز قرار دے چکا ہے۔
بلوچ سرزمین کا مالک جانتا ہے کہ وہ آج نہ صرف ترقی اور خوشحالی سے صدیوں دور دھکیل دیا گیا ہے بلکہ وہ ایک ایسی طویل غلامی کا شکار ہیں، جس نے بلوچستان کے پہاڑوں، بلوچستان کے ساحل، بلوچستان کے وسائل، بلوچستان کی تاریخ، بلوچوں کی ثقافت، بلوچ قومی زبانوں، بلوچ قومی شناخت اور سماجی اقدار کو مسخ کرنے انکی لوٹ مار کرنے، انکی شکل بدلنے میں کوئی بھی کسر نہیں چھوڑا۔ بلوچ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اگر وہ تاہنوز اپنی قومی شناخت، سرزمین، ثقافت، زبان اور روایت سے آشنا ہیں اور انکی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں تو یہ بلوچوں کی مسلسل قومی جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہیں۔
جدوجہد جو آج بھی جاری ہے، قربانیاں جو آج بھی دی جارہی ہیں۔ جدوجہد جس کی موجودہ شکل میں بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک توانا اور متحد قومی آواز کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے جس کی ایک آواز پر بلوچستان کے ہر گلی، کوچے، محلے، دیہات، قصبوں، شہروں کے لوگ جوق در جوق بلوچ یکجہتی کے کاروان کا حصہ بننے کی خاطر گزشتہ ایک ہفتے سے بلوچستان کے ہر ایک کونے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کراکر یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ بلوچ نسل کشی کیخلاف جاری اس جدوجہد کو ظلم، جبر اور تشدد سے روکنا اب ناممکن ہے۔
آج گوادر کے لوگ پانی کے بوند کو ترس رہے ہیں، جبکہ پاکستانی ریاست نے گوادر کو دنیا سے منقطع کررکھا ہے۔ پاکستانی ریاست کا بلوچ مظاہرین کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے مظاہرین اور گوادر کے عوام پر ایسے حالات پیدا کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی ریاست یزیدی ریاست ہے۔ جو حق کی آواز اٹھانے والے نہتی بلوچ ماؤں، بہنوں سمیت گوادر کے باسیوں کو پیاسا رکھ کر یاد کربلا تازہ کررہی ہے۔ مگر پاکستانی ریاست کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یزیدی لشکر رہتی دنیا تک نشانِ عبرت بن چکی ہے، جبکہ صبر، استقامت، برداشت، حق اور سچ کے بیرک بردار اپنی زندگیاں حق پر لُٹانے والے رہتی دنیا تک کامیابی اور کامرانی کی لازوال مثال بنکر حق کی جنگ لڑنے والوں کی خاطر مشعل راہ بن چکے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔