پنجاپی مزدور کا قتل حقائق کی روشنی میں – جیئند بلوچ

1341

پنجاپی مزدور کا قتل حقائق کی روشنی میں

تحریر: جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ناحق کسی انسان کا قتل کتاب مبین کی رو(سورہ مائدہ آیت 32) سے بلا تحقیق پوری انسانیت کا قتل عام شمار کیا جاتا ہے اور اس پر مسلمان کے بطور سب کا مستحکم ایمان بھی ہے کہ ناجائز کسی کو زندگی کے فطری حق سے محروم کرنا گناہ سے بڑھ کر بدترین ظلم ہے جس کا اخلاقی جواز پیش کیا جاسکتا ہے ناہی سیاسی طور پر اسے برحق جتایا جاسکتا ہے، سوال یہ ہے کہ اس زمرے میں پنجاپی مزدور کے قتل کو کیسے دیکھا جائے جو ہمیشہ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کی کارروائیوں پر ایک بڑے سوال کی صورت پیدا ہوتا رہتا ہے اور اور حال ہی میں جب 25 اگست کو پورے بلوچستان میں بی ایل اے نے قومی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر پہلی بار جیمڑی سے کوہ سلیمان تک بلوچ وطن کے طول و عرض میں کارروائی انجام دی تب بھی عام پنجاپی مزدور کے قتل کا چرچا سامنے آیا حتی کہ پاکستانی میڈیا سے ہٹ کر بین الاقوامی میڈیا نے بھی پنجاپی مزدور کشی کو رپورٹ کیا۔

بی بی سی جیسے مستند میڈیا ادارہ نے عینی شاھدین کے حوالے سے عام پنجاپی مزدور سے ان کا شناختی کارڈ چیک کرکے مارنے کا دعویٰ کیا اور اس دعویٰ کی تصدیق بھی خود ان پنجاپی مزدوروں نے کی جنہیں بطور مزدور شناخت کے بعد بی ایل اے نے چھوڑ دیا۔

اگر شناخت کے بعد پنجاپی سمجھ کر کسی کو قتل کیا گیا تو قابل قبول صورت نہیں ہے مزاحمتی تنظیموں کو اس روش پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیوں کہ بلوچ وطن پر کشت و خون اور بلوچ قتل عام پر خاموشی یا پنجاپی فوج کی تائید و حمایت کے باوجود بھی کسی پنجاپی کا شناخت کی بنا پر قتل جائز نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ واقعی بی ایل اے یا مسلح تنظیمیں ایسی گھناؤنی حرکات یا انسانیت سوز عمل کا دانستہ حصہ رہی ہیں؟ یہ بنیادی سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے جب بھی میڈیا پنجاپی مزدور کا واویلا مچاتا ہے وہ اس سوال کو نظر انداز کرتا ہے کہ پنجاپی مزدور کی شناخت کے بعد قتل کا دعویٰ دار بھی پنجاپی مزدور ہے جنہیں مزدور ہونے کے بنا قتل نہیں کیا گیا۔ میڈیا نے کبھی اس کی جانب توجہ نہیں دی کہ مزدور قتل کا مقدمہ اٹھانے والا مزدور خود کیوں کر بچ نکلا اسے کیوں گزند نہیں پہنچائی گئی، بی ایل اے یا دیگر تنظیمیں جو اس حد تک گری حرکات کا ارتکاب کرتی ہیں کہ مزدور کے قتل سے نہیں چونکتے پنجاپی عورت اور بچوں کو کیوں نہیں مارتے، انہیں ازیت کیوں نہیں پہنچاتے انہیں دسترس کے باوجود بچ نکلنے کا محفوظ راستہ کیسے دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ میڈیا اور غیر جانبدار مبصرین و دانش ور طبقہ جو پنجاپی مزدور کے قتل جیسے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوتے ہیں وہ ایک بار بلوچستان کے بلوچ بیلٹ کا سروے کریں، مکران کے تینوں اضلاع آواران اور خضدار میں آپ کو کتنے پنجاپی مزدور ملیں گے، وہی دانش ور جو بڑھ چڑھ کر پنجاپی مزدور کا رونا روتے ہیں وہ ہر دکان، نائی، نانبائی، پنکچر والے، دکان دار، کاشت کار، سموسہ، پکوڑا چپس والے سے لے کر ڈاکٹر، ماسٹر حتی کہ پولیس اور لیویز کے عام سپاہی تک کی چھان بین کریں کتنے اس وسیع آبادی میں کتنے پنجاپی مزدور ملیں گے اگر سو میں سے دو فیصد پنجاپی کام کرتے ہوئے ملے تو پنجاپی مزدور کے قتل کا دعویٰ درست تسلیم کیا جائے گا مگر دعویٰ سے یہ کہہ سکتے ہیں ان مزکورہ اضلاع میں کہیں بھی ایک پنجاپی مزدور کام کرتے نہیں ملے گا لیکن جب کہیں مسلح تنظیمیں شناخت کے بعد کارروائی کرتی ہیں اچانک پنجاپی مزدور کے قتل کا شوشا بلند ہوتا ہے آخر یہ مزدور جو برسر زمین کہیں نظر نہیں آتے اچانک قتل کے بعد کیسے نمودار ہوتے ہیں؟ کہیں یہ مزدور فوجی چیک پوسٹ اور چوکیوں پر تنخواہ دار پاکستان کی فوج کے سپاہی یا خفیہ اداروں کے اہلکار تو نہیں جنہیں بلوچستان بھر کے ہر چیک پوسٹ اور چوکی پر روز دیکھا جاسکتا ہے۔

جب چیک پوسٹ اور چوکیوں پر ہی پنجاپی مزدور ڈیوٹی دیتے نظر آتے ہیں تو ایسے مزدوروں کی شناخت کے بعد قتل پر واویلا محض مزدور کے نام پر غلیظ پروپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں اس کا مقصد ہی بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو بدنام کرنا اور عام لوگوں کے اندر وسوسہ اور فضول خدشات پیدا کرنا ہے، جب اسلام اور قرآن کی آیات اور اسلامی حوالوں کا دوران جنگ سلامتی کی بابت شکر کرتے ہیں تو یہ بھی یاد رکھا جائے کہ مدینہ کے یہودی قبائل کا اسلام دشمنی کے سبب قتل جائز قرار پایا تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔