بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے کہا کہ پاکستانی فوج کی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف پریس کانفرنس اس بات کی واضح دلیل ہے کہ فوج بلوچ عوام کی طاقت اور پرامن جدوجہد سے خوفزدہ ہے۔ سیاسی اور انسانی حقوق کی تحریک کے خلاف ریاستی فوج کا پریس کانفرنس کرنا بذات خود اس بات کا اعتراف ہے کہ ریاستی فوج براہِ راست بلوچ نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہے۔ ہمارا شروع دن سے یہی موقف رہا ہے کہ ریاستی فوج اور خفیہ ادارے براہِ راست بلوچ نسل کشی کر رہے ہیں اور بلوچستان میں بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں۔ آج جب ہزاروں کی تعداد میں لوگ بلوچ نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور بلوچ نسل کشی کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، تو ریاست بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو بند کرنے اور بلوچ نسل کشی ختم کرنے کے بجائے ریاست کی فوج پرامن سیاسی تحریک کے خلاف پریس کانفرنس کر رہی ہے، جو ہمارے موقف کی تائید اور اعترافِ جرم ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم فوج کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی غیر جانبدار تیسری پارٹی یا انسانی حقوق کی تنظیم کے ذریعے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کریں، جو ریاستی فوج کی بلوچ یکجہتی کمیٹی پر لگائے گئے الزامات کی غیر جانبدارانہ طریقے سے تحقیقات کرے۔ اگر آپ کے لگائے گئے الزامات میں سے کسی ایک بھی الزام ثابت ہوا تو ہم پاکستان سمیت دنیا کی کسی بھی عدالت میں خود کو پیش کریں گے۔ لیکن اگر الزامات ثابت نہیں ہوئے تو پاکستانی فوج بلوچ نسل کشی کا اعتراف کرکے خود کو سزا کے لیے پیش کرے۔
انہوں نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاستی فوج کی ایک عوامی سیاسی تحریک کے خلاف پریس کانفرنس بلوچ یکجہتی کمیٹی سمیت اس خطے کے تمام مظلوم اقوام کی تحریکوں کے اس موقف کی تائید کرتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت، آئین اور قانون وجود نہیں رکھتے بلکہ یہاں شروع دن سے فوج کی حکمرانی میں بدترین آمریت اور فاشزم قائم ہے۔ پاکستانی فوج کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اس خطے میں کسی بھی حقیقی سیاسی تحریک کو دبانے کے لیے اسے بیرونی ایجنٹ، بیرونی فنڈڈ اور غدار جیسے اصطلاحات سے خاموش کیا جائے اور دبایا جائے۔ لیکن فوج اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ 1970ء نہیں ہے کہ آپ کے جھوٹے پروپیگنڈے اور دروغ گوئی سے آپ عوام اور بین الاقوامی دنیا کو فریب میں رکھ سکتے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی بلوچ نسل کشی کے خلاف تحریک خالصتاً پرامن عوامی سیاسی تحریک ہے جسے پورے بلوچستان میں بھرپور عوامی حمایت، قوت اور طاقت حاصل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی یہی عوامی طاقت، قوت اور پرامن جدوجہد ریاست سے ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ اس لیے ایک جانب پوری طاقت کو استعمال کرکے اس عوامی جدوجہد کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری جانب فوجی پریس کانفرنس کے ذریعے جھوٹا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ریاست پاکستان بلوچستان میں کبھی بھی پرامن سیاسی جدوجہد کو برداشت نہیں کرتی بلکہ وہ گزشتہ ستر سالوں سے جس طرح بندوق کے زور پر حکمرانی کرتی آئی ہے، اسی طرح طاقت اور تشدد کے زور پر اپنی حکمرانی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔کیونکہ عوامی سیاسی جدوجہد کے ذریعے بلوچستان کے بدترین حالات، جبراور بندوق کی حکمرانی اور بلوچ نسل کشی پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوجائے گی ۔
ترجمان نے کہاکہ ہم ریاست اور اس کی فوج کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نہ آپ کی جھوٹی پریس کانفرنس سے اپنی عوامی جدوجہد سے پیچھے ہٹے گی اور نہ کسی دباؤ میں آئے گی۔ ہم بلوچ نسل کشی کے خلاف اپنی جدوجہد کو مزید منظم اور تیز کریں گے اور عوامی طاقت کے زور پر بلوچ سرزمین سے بلوچ نسل کشی کا خاتمہ کریں گے۔ بیرونی پراکسی ہونا یا بیرونی فنڈڈ ہونا ہمارے سیاسی روایات کا حصہ نہیں ہے، ہماری جدوجہد اصول اور نظریے پر قائم ہے اور قائم رہے گی، اور ہماری طاقت صرف بلوچ عوام ہے۔ جبکہ یہ بات پوری دنیا کو معلوم ہے کہ بیرونی فنڈڈ ہونا اور بیرونی پراکسی آپ کی روایات کا حصہ ہے۔