وضاحتیں کیوں؟
تحریر: مولانا اسماعیل حسنی
دی بلوچستان پوسٹ
یہ کتنی افسوسناک بات ہے جب بندہ اپنے قصد و ارادہ، ایمان و عمل اور عقیدے کی وضاحتیں اور صفائیاں مولویوں کی جبر پر لوگوں کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوجائے؟ اسلام اگر خدا کا دین ہے تو مولوی کو یہ اتھارٹی آخر کس نے دی ہے کہ وہ فیتہ لیکر لوگوں کے ایمان کے حدود ناپتا رہے یا اسلام کی سرٹیفکیٹ بانٹتا پھرے؟ اس میں ایک حصہ ان لوگوں کا بھی ہے جو سبقت لسانی پر خود خدا کی بجائے مولویوں سے معافی مانگتے رہتے ہیں۔ (اگرچہ سبقت لسانی پر خدا کے ہاں گرفت نہیں لیکن ملا کے پاس گرفت کرنے کی بہرحال اتھارٹی ہے۔)
بد قسمتی سے اس وقت ہر طرف مذہبی جنونیت کا راج و رواج ہے۔ معاشرہ ان ہی جنونیوں کے ہاتھوں خوف زدہ، دہشت زدہ اور وحشت زدہ ہے جیسے کہ عیسائیوں کے جبر کے زمانے میں کیتھولک چرچ کے مولویوں کے ہاتھوں یرغمال تھے۔
بلوچ معاشرہ میں دن بہ دن مذہبی جنونیت کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ بھی نہایت خوف ناک معاملہ ہے۔ میرے سامنے اس وقت دو ایسے ایشوز ہیں جن پر نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ لکھنا ضروری ہے۔
ایک سندھ سے ہمارا ایک ساتھی مولانا سیف الرحمن بلوچ کا معاملہ ہے جو چند ماہ بعد مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں سر اٹھایا ہوا ہے۔
دوسرا معاملہ بلوچستان سے ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا ہے جو ابھی کچھ روز قبل راجی مچی کے بعد سے جنم لیا ہے اور دونوں کو ہی معافی مانگنے اور معذرت کرنے پہ مجبور کیا گیا ہے۔
یہ دونوں معاملات میں ایک ہی طبقہ بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ ایک ہی پارٹی کے ورکرز اور ذمہ دار آپے سے باہر نظر آرہے ہیں۔ میری نظر میں یہ واضح طور پر سیاسی تعصب کے شاخسانے ہیں جو مذہبی نفرت کی شکل میں بھڑاس بن کر سامنے آئے ہیں۔
سیف الرحمن بلوچ ایک باشعور نوجوان ہیں۔ سندھ میں راشد سومرو کی ٹیم یہ چاہتی تھی کہ انہیں اپنے مکروہ سیاسی عزائم کی تکمیل اور وقتی تنظیمی پروپیگنڈوں کےلیے استعمال کریں۔ تین چار برس قبل ہم سے انہیں الگ کرنے کےلیے خود راشد کو ہی ان کے گھر جانے پر مجبور ہونا پڑا لیکن جب یہ نوجوان ان کے اہداف اور مشن پر کام کرنے سے خود کو باز رکھا تو راشد کچھ شرپسند مولویوں کو ان کے پیچھے لگا گئے۔ کچھ مولوی اقبال کے مصرعہ ”دین ملا فی سبیل اللہ فساد“ کےلیے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ ان کے بیانات سے غلطیاں نکالنے کےلیے سرتوڑ کوششیں کرتے کرتے کافی عرصہ سے ہاتھ مل رہے تھے کہ اچانک انہیں اپنا کھویا ہوا ایک متاع یوں ہی مل گیا جیسے کہ مکھی کو جسم پر زخم پر جا بیٹھنے کی صورت میں خوراک ملا کرتی ہے۔
سیف الرحمن بلوچ نے اپنی ایک انٹرویو میں ایک قابلِ تاویل نکتہ استعمال کیا تھا بالکل ویسی ہی ڈاکٹر صبیحہ کے بیان میں جو جملہ ہے، اس میں بھی تاویل کی گنجائش ہے۔ جس طبقہ نے گرفت کی ہوئی ہے، وہ اپنے اور اپنے بڑوں کی غلطیوں کےلیے دور دراز سے تاویل کرکے باطل استدلالات کا سہارا لیتا ہے لیکن جب باری کسی ایسی شخصیت کی آجائے جو ان کی نگاہ میں ناپسندیدہ ہو یا ان کی تحریک سے انہیں کوئی بد نیتی ہو یا پھر ان کی سیاسی سوچ و فکر سے متصادم ہو تو یہی لوگ جج بن کر پہلے ان کے دل میں اتر جاتے ہیں اور پھر ان کی نیت، قصد و ارادہ کی جانچ پڑتال کے بعد ایمان و عقیدے تک کا فالودہ بنا ڈالتے ہیں۔
مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ امام ابوحنیفہ کا دم کیسے بھرتے ہیں جن کی سوچ و فکر پر علامہ ابن تیمیہ کا تشدد پسندی غالب ہے۔ امام ابوحنیفہ جن کا مسلک یہ ہے کہ :
”کسی شخص کا کوئی قول آپ تک پہنچے۔ جس میں 100 میں سے 99 احتمال منفی پہلوؤں کے نکلتا ہو اور ایک ہی تاویل سے مثبت پہلو کا کوئی احتمال نکلے۔ اس ایک مثبت احتمال کو لیں، 99 منفی احتمالات کو ترک کریں۔“
یہ اس امام کا نام لیوا ہوکر بھی نہ جانے ان کے مسلک کو کیسے ہضم کر جاتے ہیں؟ جی ہاں! سیاسی نفرت اور تعصب میں انسان اندھا ہوکر سب کچھ کر گزرتا ہے۔
اندازہ کیجیے اسی جماعت کے KPK میں ایک مولوی نے کچھ عرصہ قبل ایک جھوٹا خواب بیان کرتے ہوئے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو بیہودہ کلمات کہے تھے، وہ بیان سننے والے ایمان سے بتائیں کہ کیا وہ کفریہ کلمات نہیں تھے؟ کیا ان کی بھی رکنیت معطل کی گئی؟ ان کو سزا ملنا دور کی بات ہے انہیں تو عہدوں سے بھی نوازا گیا ہے اس کے بعد۔ کیا واضح منافقت نہیں؟ لوگ تنقید کرتے تھے اور آپ لوگ صفائیاں دیتے پھرتے تھے۔ کیا آپ کی طرف اسے ان کے خلاف ایسے ہی پروپیگنڈے کیے گئے تھے جو سیف الرحمن بلوچ اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے خلاف ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے۔
میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ جھوٹا پروپگنڈہ کوئی اچھا کام ہے بلکہ میں صرف مولویوں کے منافقانہ چہروں سے نقاب اتارنے لگا ہوں جو اپنے بڑوں کی بڑی غلطیوں کے معاملے میں وکیل بن جاتے ہیں اور دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی گرفت کرنے کےلیے جج بن کر فیصلے بلکہ فتوے صادر کرتے رہتے ہیں۔
میرا سیف الرحمن بلوچ کے ساتھ گزشتہ دنوں رابطہ ہوا۔ انہوں نے میرے رابطہ سے پہلے ہی وضاحتی بیان جاری کیا تھا اور مولویوں نے وضاحتی بیان کو مسترد کرتے ہوئے معافی کا مطالبہ کیا تھا۔ پھر جب انہوں نے معافی مانگ لی تھی تو ایک طبقہ نے یہاں تک کہنا شروع کیا کہ وہ کون ہوسکتا ہے جو انہیں معاف کرے؟ ان کےلیے تو معافی کا دروازہ ہی بند ہے۔ (یعنی یہ لوگ سچ مچ خود کو جہنم کا داروغہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ سیف کا ایک عجیب مخلوق سے پالا پڑا ہے۔ اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔)
میں نے سیف الرحمن کے ساتھ رابطہ میں انہیں تسلی دی اور مشورہ بھی دیا کہ نہ وضاحتیں پیش کریں اور نہ ہی صفائیاں دیتا پھریں۔ یہی میری کوشش تھی کہ میں بہن ڈاکٹر صبیحہ کو بھی کسی واسطہ سے مشورہ دوں مگر ان کے ساتھ رابطہ نہ ہوسکا اور وہ بھی معذرت پر چلی گئی۔ (اللہ کرے کہ جہنم کے داروغے ان کی معذرت قبول کرلیں)
میرا اب بھی ان دونوں کو یہی مشورہ ہے کہ مزید نہ وضاحتیں دیں اور نہ ہی صفائیاں پیش کریں۔ اس عمل سے یہ لوگ مزید جری ہوجاتے ہیں، گویا کہ آپ ہی ان کی رٹ کو معاشرے پر مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ کل کلاں یہ کسی پر دست درازی سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ سبقت لسانی ہوئی ہے یا جو کچھ بھی ہوا ہے۔ اللہ پر ہی چھوڑ دیں کسی مُلّا سے اپنے اسلام کی سرٹیفکیٹ ہرگز نہ مانگیں۔ یہ بیچارے خود اپنا ایمان بھی دلائل سے ثابت نہیں کرسکتے آپ کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی اتھارٹی انہیں کس نے دی ہے؟
یہ لوگ کسی بھی حالت میں آپ سے خوش نہ ہوں گے۔ ان کی اصل ناراضگی آپ کی ذات سے نہیں بلکہ سوچ و فکر اور پروگرام سے ہے۔ آپ انسانی روپ میں خدائی کے دعویداروں کے سامنے سر نہیں جھکاتے اور یہ ہمیشہ ان ہی طاقت وروں کی خوشنودی میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے دوڑ میں ہوتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔