واقعات کو کر نے والوں نے تو اپنی ذمہ داری قبول کر لی کیا حکومت بھی اپنی ناکامی کی ذمہ داری قبول کریگی – اختر جان مینگل

568

بلو چستان نیشنل پارٹی (مینگل ) کے سربراہ سر دار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے معاملات سیاسی قیادت کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں ہم تو پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور ہرحکومت کے ساتھ مذکرات کر کے تھک گئے ہیں لیکن اسکا آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ، ملاقات ، مذکرات کے بعد اب “منہ کالات ” باقی رہ گئے ہیں جنہوں نے آج ملاقات کر لی ہے انکے بھی منہ کالات ہو گئے ہیں جو تھوڑے بہت سفید دھبے رہ گئے تھے وہ بھی اب نہیں بچے ۔ یہ بات انہوں نے صحافیوں کے وفد سے بات کر تے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہاکہ ہم ہمیشہ سے یہی کہتے تھے کہ بلو چستان کے معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور جو نکات ہم نے ہمیشہ حکمرانوں کے سامنے رکھے اگر ان پر عملدر آمد ہوجاتا تو آج حالات مختلف ہو تے لیکن ہماری باتوں پر غور نہیں کیاگیا آج معاملات سیا سی قیادت کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں اب حکمران جائیں ان سے بات کریں جنہیں نے بندوق اٹھا لی ہے ہمیں تو الیکشن کے بعد اسمبلیوں سے بھی باہر کر دیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ میں موسیٰ خیل سمیت حالیہ واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کر تاہوں بسوں سے بے گناہ لوگوں کو اتار کر قتل کر کے کوئی تحریکیں نہیں چلتی افسوسناک واقعے کی مذمت کرتاہوں لیکن اب کتنے واقعات کی مذمت کرتے رہیں ؟ کیا بلو چستان میں بلوچوں کو جس بے دردی سے قتل کیا گیااسکی بھی کسی نے مذمت کی ؟۔

انہوں نے کہاکہ مو سیٰ خیل واقعے سمیت حالیہ واقعات حکمومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبو ت ہے ، باڈر سے ایک غیر قانونی گاڑی یااسمگلنگ کا سامان پاکستان میں داخل ہوتا ہے تو ہمارے تمام اداروں اور سیکورٹی فورسز کو اسکا پتہ چل جاتا ہے اور اتنے بڑے واقعات کا پہلے سے کسی کو کیوں پتہ نہیں چلا ؟ ۔

انہوں نے کہاکہ مہذب ممالک میں اس طرح کے واقعات پر وزیر اور ذمہ داران اپنے استعفے دے دیتے ہیں یہاں پر کسی کے ناک سے ایک قطرہ خون تک نہیں گرا ان واقعات کو کر نے والوں نے تو اپنی ذمہ داری قبول کر لی کیاحکومت بھی اپنی ناکامی کی ذمہ داری قبول کریگی حالت تو یہ ہے کہ رکشہ چلانے والوں کو اعلیٰ عہدوں پر بیٹھا دیا گیا ہے وفا قی وزیر داخلہ کے اس بیان پر حیرت اور ہنسی آئی کہ بلو چستان میں ان واقعات میں ملوث لوگوں کو ایک ایس ایچ او کی مار قرار دے رہے ہیں یہی وہ مائنڈ سٹ ہے جس سے مسائل حل ہو نے کی بجائے مزید اجلتے جا رہے ہیں ،ماضی میں بھی جنرل مشرف مکے لہرا کر یہ کہتا تھاکہ بلو چ کو ایسا ہٹ کریں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا وہی رویہ آج بھی اپنا یا جا رہا ہے جس کو ہم سیا ست سے نا واقفیت ہی قرار دے سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اب مذکرات کس سے اور کون کریگا کیا اس بارے میں سوچا ہے کسی نے ،اب مذمتوں سے بات آگے نکل چکی ہے مذکرات اور ملاقاتوں کے بعد اب منہ کلات بچ گئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جو اب ملاقوں کے لئے جا رہے ہیں انکے بھی منہ کالات ہو گئے ہیں انکے جو سفید تھوڑے بہت دھبے بچ گئے تھے وہ بھی اب باقی نہیں رہے ۔

انہوں نے کہاکہ بلو چ یکجہتی کونسل کے اسلام آباد میں احتجاج پر جو رویہ اختیار کیا گیا اور خواتین پر ٹھنڈا پانی پھینک کر جو دنیا کو پیغام دیا گیا اسکے بعد آپ کس خیر کی توقع رکھتے ہیں ، گوادر میں ایک جلسے کو روک کر جو حالات پیدا کئے گئے اسکے ذمہ داری کون تھے ؟۔