نواب اکبر خان بگٹی کی قربانی آج بھی بلوچ قومی تحریک کی آبیاری کر رہی ہے۔ این ڈی پی

235

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی شال زون کی جانب سے نواب اکبر خان بگٹی کی اٹھارویں برسی کی مناسب سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز شہید نواب اکبر خان بگٹی اور شہداء بلوچستان کے یاد میں خاموشی سے کیا گیا، اسٹیج سیکرٹری کے فرائض این ڈی پی شال زون کے آرگنائزنگ کمیٹی ممبر ثانیہ بلوچ نے نبائی جبکہ نواب اکبر خان بگٹی کے فرزند جمیل اکبر بگٹی اور پروفیسر ڈاکٹر منطور بلوچ نے اپنے خیالات کےاظہار کیے۔

پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے ثانیہ بلوچ کی جانب سے نواب اکبر خان بگٹی کی مختصر بائیوگرافی پڑھ کر سنائی گئی۔ پروگرام کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ڈاکٹر منظور بلوچ نے نواب اکبر بگٹی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج عہد ساز شخصیت، تاریخ ساز شخصیت اور رزمیہ شخصیت کا دن ہے جہنوں نے اپنی پیران سالی میں عملی مزاحمت کا مظاہرہ کرکے اپنی جان قربان کی لیکن اپنی گلزمین پر انہوں نے جو خطرات محسوس کیے انکو روکنےکی سد باب کیلئے اپنا خون بہایا۔

26 اگست کا دن بلوچستان کی تاریخ میں کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔ نواب صاحب کی زندگی ایک ہنگامہ خیز زندگی رہی جس میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن بلوچ قوم کی محبت تب اُبھری جب یہ اطلاع آئی کہ نواب صاحب کی شہادت کیلئے پاکستان کی طرف سے سب سے بڑی فوج کشی کی گئی ہے۔ یہ وہ دن تھا جس دن ہر بلوچ کی آنکھ آشکبار تھی اور بلوچ قوم خود کو یتیم محسوس کر رہی تھی کیونکہ اس دن ایک توانا اور فادر فگر بلوچ قوم سے چھین لی گئی تھی۔ سب سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ دوسری جانب نام نہاد لکھاریوں کی جانب نواب صاحب کی زندگی میں ان کی کردار کشی کی گئی اور ان کے جانے کے بعد بھی ان کی کردار کشی کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی ملاقات نواب صاحب سے 1993 میں پہلی بار ہوئی۔ نواب صاحب وہ تھے،جنہوں نے بلوچ قوم کیلئے ہمیشہ بات کی مگر انہوں نے کبھی خود کو ایک نیشنلسٹ کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ وقت کے قوم پرستوں کو وہ پیٹ پرست کہتے تھے، آج نواب کی وہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ سارے نام نہاد نیشلسٹ واقعی پیٹ پرست نکلے نواب صاحب وہ شخصیت تھے جو اصول پرست تھے اور انہوں نے نہ کرپشن کی اور نہ کر پشن کو پسند کیا۔ نواب صاحب نے اپنے زندگی میں اپنی دوستوں کی طرف سے کئی مشکلات دیکھی بہت سے جیسے نیپ کے ساتھی تھے انہوں نے بھی نواب صاحب کی مخالفت کی لیکن اسکے باوجود نواب صاحب نے بڑھ چڑھ کر ان کا ساتھ دیا اور ان کی مدد کی۔ ان تمام ترحالات کی بنا پر نواب صاحب نے گوشہ نشینی اختیار کی نواب صاحب جلا وطن تو نہیں ہوئے مگر کہی عرصوں تک گوشہ نشین رہے۔ کچھ عرصوں کے بعد پھر 1988 میں بلوچ اتحاد کا ایک جلسہ ہوا اس جلسے میں انہوں نے خطاب کیا اور بلوچ قوم نے ان کو اپنا لیا، پھر بی این ایم بنی جنہوں نے وزارت اعلی کے لئیے نواب صاحب کو منتخب کیا، لیکن بی این ایم کے رہنماؤں نے ویسے ساتھ نہیں دیا جیسے دینا چاہیئے تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عطا اللہ مینگل، بابا خیر بخش مری اور نواب اکبر خان بگٹی تینوں عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنے جوان بیٹوں کی قربانی دی۔ لیکن آج ایک المیہ ہے کہ جب نوجوان پڑھ لکھ لیتے ہیں تو اپنی اکابرین کے بارے میں اناپ شناپ بول دیتے ہیں،حالانکہ اپنی جوان بیٹوں کی قربانی آسان بات نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بلوچ قوم کو ان کا وقار دلایا۔ یہ بلوچ قوم کی خوش بختی ہے کہ یہ تینوں ایک ہی دور میں سامنے آئے۔ نواب صاحب وہ شخصیت ہے کہ جو خود پہاڑوں پر گئے۔ آج ہمارا ایک مسئلہ ہے کہ ہمارے پاس اچھے استاد نہیں ہیں، علم اور لوجیک سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور ہم نے کوئی بڑے رائٹرز پیدا نہیں کئے، ہمارے پاس ایسے لوگ نہیں ہیں جو ان شخصیات کے بارے میں لکھ سکے،ریسرچ کر سکیں، دلیل کے ساتھ بات کر سکیں، ہم اگر اپنے شخصیات کے بارے میں لکھتے، یا تحقیق کرتے تو یہ لوگ نیلسن منڈیلا سے بڑی شخصیات ہیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لکھنے والے کا قلم بہت چھوٹا ہے۔ اس میں ہماری کوتائیاں ہیں کہ ہم نے اپنے ان شخصیات کے فکر کو لکھنے کی کوشش کی اور نہ ہی ان کو محفوظ کرنے کی کوشش کی یہی وہ کمی ہے کہ جسکی بنا پر ہماری آج کی نسل حقیقی چیزوں سے نا واقف ہے ہمارے پاس ان شخصیات کی ایک اچھی سی بائیو گرافی تک نہیں ہے۔

پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے شہید نواب اکبر خان بگٹی کے فرزندجمیل اکبر بگٹی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ظلم کا سلسلہ 1947 سے شروع ہوا جب انگریزوں نے ہمیں قلات کی ریاست میں شامل ہونے نہیں دیا۔ نواب صاحب نے اس چیز کی فاؤنڈیشن 20 سال کی عمر میں ہی رکھ دی تھی انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے لوگوں اور زمین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں 10 سال کا تھا تب سے مجھے اس ریاستی نظام سے نفرت ہے اور اسکی نفرت کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد کو انہوں نے جیل میں ڈال دیا تھا اور جب وہ رہا ہوئے تب میں 20 سال کا ہو چکا تھا۔ پھر انہوں نے ایک پس منظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ قلات سٹیٹ 11 اگست 1947 میں آزاد ہوا اور مری بگٹی ایجنسی قلات کا حصہ نہ تھے بلکہ وہ برٹش بلوچستان کا حصہ تھے۔ پھر انہوں نے شاہی جرگہ کو استعمال کیا کہ آپ ووٹ دیں کہ آپ پاکستان یا پھر ہندوستان میں شامل ہوناچاہتے ہیں۔ اس وقت میرے والد اور نواب خیربخش مری 19 یا 20 سال کے تھے، ان کے دور اندیشی کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے 20 سال کے عمر میں برٹش کو لکھا کہ آپ ہمیں تیسرا آپشن دے کہ ہم قلات سٹیٹ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ہمیں یہ حق ہونا چاہیے۔ اس چیز پر برٹش نے انکار کر دیا پھر مجبوراً ان کو پاکستان میں شامل ہونا پڑا۔ پھر وہ سیاست کے میدان میں آئے وہ ریپبلکن پارٹی میں بھی رہے. پھر ایوب کے دور میں والد نے 8 سال جیل میں گزارا. آج پاکستان میں فیروز خان نون کا کہا جاتا ہے کہ گوادر کو بلوچستان میں انہوں نے شامل کیا تھا لیکن گوادر کو بلوچستان میں شامل کرنے کا سب سے بڑا کام میرے والد کا تھا۔

جمیل اکبر بگٹی نے کہا کہ نواب صاحب نے یہ محسوس کیا بلکہ ہمیں کہا جاتا کہ پاکستان میں بلوچ کا کوئی مستقبل نہیں۔ عزت سے رہنے کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب نواب بگٹی نے یہ محسوس کیا کہ یہ ریاست مجھے یہاں زندہ رہنے نہیں دے گی بلکہ ریاست نے مجھے مارنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ فیصلہ میرے ہاتھ میں ہے کہ میں کس طرح کا موت اپنے لیے منتخب کروں، پھر اس نے پہاڑوں کا رخ کیا اور اپنے لیے وطن کی خاطر شہادت کا راستہ چن لیا۔ لیکن اس دوران ان کے پارٹی جے ڈبلیو پی کے رہنماؤں سمیت کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا، مجھے بحیثیت ان کے فرزند اچھی طرح یاد ہے کہ کون کون نواب اکبر بگٹی کو چھوڑ گئے، بلکہ ان کی شہادت کے بعد ان کے پارٹی کے کئی دوستوں نے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز و باز کیے۔لیکن آج میں بلوچ نوجوانوں کی آگاہی، جوش و جذبہ دیکھتا ہوں تو ہمیں خوشی ملتا ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان کیلئے جان قربان کرنے کا فلسفہ نواب اکبر خان بگٹی سے لے کر آج تک جاری ہے۔