میرے دور حکومت میں لندن اور جنیوا میں بیٹھے بلوچ لیڈران ریاست سے مذاکرات پر آمادہ تھے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ

233

سابق وزیر اعلی بلوچستان نے کہا ہے کہ جنیوا اور لندن میں بلوچ لیڈروں سے مذاکرات کا وہ حال ہوا جو گوادر میں ہوا-

اپنے بیان میں نیشنل پارٹی رہنماء اور سابق وزیر اعلی کا کہنا تھا بلوچستان کے عوام کو ریاست نے ووٹ کا حق نہیں دیا، بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کو آپ پارلیمنٹ میں بھیجیں تب پتا چل جائے گا کہ مسائل حل ہوں گے یا نہیں-

انہوں نے کہا حکومت میں بیٹھے افراد وہی لوگ ہیں جو مسلم لیگ فنکشنل سے لیکر ق تک چلتے آرہے ہیں، کچھ ادھر گئے کچھ ادھر گئے، یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ الیکشن سے پہلے ٹرانسفر کا سلسلہ صرف بلوچستان میں ہوتا ہے-

ڈاکٹر مالک کے مطابق جب میں بلوچستان کا وزیر اعلی تھا نواز شریف نے، عسکری قیادت اور پاکستان کے آل پارٹیز نے مجھے مذاکرات کیلئے بھیجا میں نے لندن اور جنیوا میں بیٹھے بلوچ لیڈروں سے کامیاب مذاکرات کیے، اس وقت ہماری بات مان لیا جاتا تو ابھی تک بلوچستان کے ساٹھ سے ستر فیصد مسئلہ حل ہوجاتا-

انہوں نے کہا میرے دؤر حکومت میں بلوچستان کے مسلح تنظیموں سے مذاکرات کا جو ٹاسک ملا وہ لندن اور جنیوا میں ہمارے مذاکرات کے دؤران ایک حد تک ان لوگوں نے چیزوں سے اتفاق کرتے ہوئے مذاکرات پر اصرار کیا میں نے آکر سیاسی اور عسکری قیادت کو رپورٹ دی کہ وہ مذاکرات کیلئے تیار ہیں، لیکن وہ مذاکرات ایسے ڈیل کیے گئے کہ آپ تصور نہیں کرسکتے-

انہوں نے کہا گذشتہ رات گوادر دھرنے کے حوالے سے ہمارے پارٹی نمائندے اشرف حسین کے گھر جو مذاکرات ہوئے ہم تو مذاکرات والے ہیں ہم عدم تشدد کے پیرو کار ہیں ہم پارلیمنٹ کی بالادستی چاہتے ہیں لیکن یہ بات بھی نہ ہو کہ آپ کسی کو حق نہ دیں کہ وہ مظاہرہ بھی نہ کریں آپ اس مظاہرے کو منفی رنگ دے دیں۔

انہوں نے مزید کہا گوادر، مستونگ میں اور دیگر علاقوں میں مظاہرین مارے گئے، لوگ تاحال گرفتار ہیں، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ بلوچستان کے حالات کو کیوں اس نہج پر لے گئے۔