مکار دشمن کے بدلتے روپ ۔ ذوالفقار علی زلفی

372

مکار دشمن کے بدلتے روپ

تحریر: ذوالفقار علی زلفی
دی بلوچستان پوسٹ

بابا خیر بخش مری فرماتے تھے کہ پنجابی ایک مکار دشمن ہے، وہ بھیس بدل بدل کر آتا ہے، نت نئے موقف لے کر، اس کے متعدد سر ہیں اس لئے بلوچ کو ہمیشہ اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں ـ
بلوچ راجی مُچّی کے حوالے سے پہلے پروپیگنڈے کا بازار گرم کیا گیا ـ بلوچستان کی نمائشی اسمبلی میں تقاریر کرکے بتایا گیا اجتماع کس شہر میں کرنا ہے اس کا فیصلہ کرنا حکومت کا اختیار ہے ـ اس سے پہلے کہا گیا شہر کے کس مقام پر کرنا ہے اس کا فیصلہ کرنا حکومت کا اختیار ہے ـ
جب راجی مچی کے لئے لوگ نکلنے لگے تو فرمایا گوادر اجتماع میں بی ایل اے نے بم دھماکے کا منصوبہ بنا رکھا ہے ـ لوگوں کی زندگی بچانا حکومت کا فرض ہے ـ پھر اس فرض کو نبھاتے نبھاتے متعدد افرد قتل، درجنوں زخمی اور سیکڑوں گرفتار کئے گئے ـ فرض شناسی کا جذبہ مزید بڑھا تو گوادر، تربت، پنجگور اور گرد و نواح میں موبائل سگنلز جام، انٹرنیٹ بند اور سڑکیں بلاک کردی گئیں ـ
ریاست کو شاید اب بھی اپنے اختیارات پر یقین نہ تھا ـ پورے گوادر شہر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا ـ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین گرفتار کئے گئے ـ
پنڈی سے خبر آئی نہتی بلوچ خواتین نے تو چوڑیاں مار مار کر حادثے میں مرنے والے فوجی کو دوبارہ مار دیا ہے ـ پاکستانی میڈیا، سیاست دان اور سوشل میڈیا کے جانباز باجماعت مذمت کرنے لگے ـ بات مگر پھر بھی نہ بنی ـ
پھر فرمایا مزاکرات کریں گے ـ گوادر کے مداری ایم این اے مولانا ہدایت الرحمان جن کو اسلام آباد میں جاری الشمسی و البدری ڈرامے سے فرصت نہیں مل رہی تھی وہ آگے آئے ـ موصوف نے پہلے فرمایا میں جرگہ لے کر جاؤں گا پھر کہا نہیں میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھوں گا ـ مولانا صاحب ایم پی اے فنڈز تو ڈکار چکے تھے اب بحرِ قلزم کی تہہ ٹٹولیں یا چاند پر جائیں ـ
پھر آواز آئی اپوزیشن کے لوگ مزاکرات کریں ـ ریاست کے وردی و بےوردی نمائندے گوادر دھرنا گاہ پہنچے ـ ایک ایک نکتے پر آئینی و قانونی بحث کرنے لگے ـ دوسری جانب پورا بلوچستان بند پڑا تھا ـ مغربی بلوچستان کے لوگوں نے راشن بجھوانے کی کوشش کی تو سرحد پر روک دیے گئے ـ اشمسی و البدری گوادری مولانا نے فرمایا ، یہ ماہ رنگ عوام کو بھوکا مارنا چاہتی ہے ـ مزاکرات کرو اور نکلو ـ
پھر مزاکرات ہوئے ـ معاہدے ہوئے ـ میڈیا میں ڈھول پیٹا گیا “شکر ہے پاکستان بچ گیا” ـ پاکستان پر سے خطرہ مگر شاید ٹلا نہ تھا ـ خطرہ دور کرنے کے لئے کراچی سے مزید خواتین و حضرات گرفتار کئے گئے ـ پنڈی کو مگر قرار نہ آیا ـ نوشکی میں فائرنگ کرکے پھر بلوچ خون بہایا گیا ـ اطلاع یہی ہے کہ ایک بلوچ اپنے قیمتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے ـ
مقصد صرف یہی ہے کہ بلوچ کو الجھایا جائے ـ تھکا تھکا کر مارا جائے ـ پروفائنلگ کی جائے تاں کہ بوقتِ ضرورت کام آئے ـ جبری گم شدگی کا کاروبار بھی تو چلانا ہے ـ لاشوں کی فصل بھی تو اگانی ہے ـ بقول پنجابیوں کے “پاکستان کے غداروں کو ـــــــ گولی مارو سالوں کو” ـ یہ بلوچ کو نشانِ عبرت بنانے پر یکسو ہیں ـ
منصوبہ یہی ہوگا اس چومکھی لڑائی سے بلوچ تھک جائیں ـ بھوک سے نڈھال ہوجائیں ـ کاروبار زندگی ٹھپ ہوجائے ـ پھر سماج خود کہے “بیٹی ماہ رنگ بس کردو” ـ یا ـ بیٹی ماہ رنگ خود گبھرا کر کہے جیسے تیسے کرکے نکلو ـ دونوں صورتوں میں ہار بلوچ کی ہوگی ـ چت بھی اس کی، پت بھی اس کی ـ اس کی اس سازش کو ہوش مندی کے ساتھ عوام سے مل کر ناکام بنانا ہوگا ـ
اس لئے بابا مری کہتے ہیں:
پنجابی ایک مکار دشمن ہے، وہ بھیس بدل بدل کر آتا ہے، نت نئے موقف لے کر، اس کے متعدد سر ہیں اس لئے بلوچ کو ہمیشہ اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں ـ
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جواں سال قائدین کو ہمہ وقت چوکنا رہنا چاہیے ـ پرانے شکاریوں کے نئے جالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے ـ یہ آئین و قانون کی لاکھ بکواس کریں مگر خود اس کو مانتے نہیں ہیں ـ
اس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹی بدترین ریاستی دباؤ کے باوجود ایک بہترین عوامی پوزیشن کی مالک ہے ـ کوہ سلیمان سے سمندر تک بلوچ اس کی پشت پر کھڑے ہیں ـ گولیوں کا سامنا کر رہے ہیں ، ہر تکلیف برداشت کر رہے ہیں مگر ثابت قدم ہیں ـ کمیٹی کو اپنی اس عوامی طاقت کا درست اور موثر استعمال کرنا چاہیے ـ اسے عیار دشمن کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے ـ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔