مزاحمت کی میراث: شھید غفار لانگو سے ڈاکٹر ماھرنگ بلوچ تک ۔ شوہاز بلوچ

590

مزاحمت کی میراث: شھید غفار لانگو سے ڈاکٹر ماھرنگ بلوچ تک
تحریر: شوہاز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ 

تاریخ کے پنوں میں ایسے نام موجود ہیں جو قربانیوں کی طاقت اور مستقبل جہدو جہد سے گونجتے ہیں ۔ ان ناموں میں کامریڈ غفار لانگو بلوچ قومی تحریک میں مزاحمت اور حوصلے کی علامت کی طور پر نمایاں ہیں ۔ با با مری کے ایک سیاسی سنگت جس کی زندگی بلوچ قوم پرستی کیلئے وقف تھی ۔ کامریڈ غفار کا سفر مصائب ، قیدو بند اور بالآخر شھادت سے عبارت تھی ۔ لیکن اس کی میراث اس کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی ۔ اسے ان کی لاڈلی بھیٹی جو کے وہ پیا ر سے پکارتے تھے مارو (ماہ رنگ) نے آگے بڑھایا ، جو کم عمری میں مستقل مزاجی ، سیاسی تجربات سے لیس بلوچ قومی مفادات کیلئے اپنے لوگوں کی رہنما اور نہی نسل کیلئے امید کی کرن بن گئی۔

کامریڈ غفار لانگو جدوجہد کی سرزمین میں پیدا ہوئے ۔ اواہل عمری سے وہ با با خیر بخش مری کے سیاسی ایجنڈے پر فائز رہے اور بلوچ حق توار نامی تنظیم سے جڑے رہے ۔ ایک ایسی تحریک جس نے بلوچ قوم کی حقوق اور خود مختاری کو محفوظ بنانے کے کوشش کی۔ سیاست میں ان کے قدم محض کیریئر کا انتخاب نہیں تھا ،یہ ایک مقصد تھا, یہ ایک نشہ تھا ، یہ ایک رہنمائی تھی ، یہ ایک زہنی ہم آہنگی تھی ، یہ ایک فیصلہ تھا ۔ کامریڈ غفار ایک ایسی جہدوجہد پر یقین رکھتے تھے جو بیرونی بیرونی مسلط کردہ طاقت اور استحصال سے آ زاد ہو کر اپنی طاقت منواسکے۔ ان نظریات کیلئے ان کی پرجوش وکالت ، تاہم ،
ہم آہنگی ، اک عظیم مقصد پر ہو ۔

ان کی مختصر زندگی کے دوران ، کامریڈ کو ریاست کی طرف سے مسلسل ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے دیوان ، مجلس ، تعلیمات اور گفتگو ہمیشہ ظلم و بربریت کی کہانیاں وت واجہی ، خود داریت کا مطالبہ تھا ۔ اسے ریاست کے ٹھیکیداروں کے جانب سے خطرے کے طور پر جان لیا جو کہ مستقبل میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہو جس کی وجہ سے مختلف مقامات پر چھاپے مارکر غیر قانونی پابند سلاسل کیا گیا ، سخت حالات پر جیل میں کئی عرصہ گزارا لیکن مسلسل جہدوجہد ، کرتے رہیں ، جسمانی اور ذہنی اذیتوں کو باوجود بلوچستان کیلیے اس کا محبت کم نہیں ہوا او مزید اپنے موقف میں ڈٹ گئے ۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جہدوجہد او محنت صرف اپنی ذاتی ضروریات کیلئے نہیں ، محاز اپنے بچوں کیلئے نہیں بلکہ بلوچ قوم کی’ آنے والی نسلوں کیلئے ہم پر واجب ہے۔

کامریڈ شھید غفار لانگو جدوجہد اور مزاحمت کی آخری لمحات بابا مری کے سیاسی ایجادات عمل پیرا ہوکر دوران علاج کراچی کے ایک نجی ہسپتال کے سامنے سے ایک بار پھر گرفتار ہوئے ، ماہ رنگ بلوچ نے اپنے آنکھوں سے اپنے ابا کی گرفتاری دیکھ لی جس سڑکوں پر گھسیٹا گیا مزاحمت کی گئی اور ڈاکٹر ماہ رنگ کے بقول اس کے اک اس نے مزاحمت کی ، اک نشانی ماہ رنگ کے ہاتھ لگی وہ تھی کامریڈ کے ہاتھ کی گھڑی ماہ رنگ کہتے ھیکہ مجھے میں اس مناظر کو اپنے آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔ یہ ایک المناک واقعہ پہلے سے بہت سے بلوچ سیاسی ورکرز کے ساتھ گزر چکا تھا ۔ کچھ عرصہ کے بعد کامریڈ غفار لانگو کے مسخ شدہ لاش گڑانی سے برآمد ہوئی ۔ جو اختلاف رائے کو خاموش کرنے کیلئے کہے گئے ظالمانہ اقدامات کے ایک سنگین اور ظالمانہ اقدامات ہے جسے دنیا کے جنگی قانونی قبول نہیں کرتا ۔ لیکن ریاست ریاست یہ سمجھنے میں ناکام رہی کہ ظلم و بربریت ، قیدو بند ، مرواہے عدالت قتلیں قومی جزبہ اور تحریک کو نہیں روک سکتی ۔ جوہی کامریڈ کے قتل کی اطلاع نشر ہوئی تو اس کے آبائی گاؤں منگچر میں لوگوں کا آنا شروع ہوا جو کہ آج بھی مزاحمت کی سرزمین کہا جاتا ہے جہاں مؤرخہ گیارہ اگست بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلے کا استقبال کیا گیا، رات کی تاراکی میں جب شھید کی لاش ان کے گھر پہنچا ہی گئی تو سینکڑوں لوگوں نے شھید کے میت کو سلامی دی اور زار زار رو نے کی آواز آئی ، یہ چیخیں کامریڈ غفار کے اہلیہ ، صاحبزادہ اور صاحبزادیوں کی تھی ان میں اک آواز ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی تھی جس کی فریاد سن ان کے آبا کے سیاسی ساتھیوں سمیت خاندان کی چیخ و پکار نے سنگلاخ پہاڑوں کی طرف ایک روح پھونک دی جو کہ آج تک بلوچ یکجہتی کی مثال بن گئ ۔ زرادیکھے اس جبر کی کہانی ایک طرف بہادر والد کی مسخ شدہ لاش پڑی ہے اور دوسری طرف کامریڈ غفار کے اکلوتا بیٹا اپنے پانچ بہنوں اور والدہ کی فریاد سن رہا ہو ۔ ڈاکٹر ماہ رنگ اپنے ابا جان کے بڑی صاحب زادی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دوست بھی تھے ۔ درحقیقت اک سیاہ رات کو ایک نئے باب کا آغاز تھا جو آج ماہ رنگ کی شکل میں بلوچستان کے کونے کونے تک بلوچ یکجہتی اور ظالمانہ خدوخیال کے خلاف منگچر کے وادی میں عہد کیا جاتا ہیکہ ظلم کے خلاف بلوچ قوم کو یکجا ہونا پڑےگا۔

ماہ رنگ بلوچ اس وقت کم عمر تھے جب وہ اپنے والد کے سایہ سے محروم ہوگئے۔ مگر وہ اپنے والد کے تعلیمات اور سیاسی بصیرت کو جذب کرچکے تھے۔ اپنے والد کے برعکس ، جنہوں نے سیاسی میدان کو اپنی میدان جنگ کے طور پر منتخب کرچکی تھی۔ ماہ رنگ نے تب اپنی کیریئر بنانے کا فیصلہ کرلیا، کیونکہ اس کے ابا جان نے انہیں گرفتاری سے قبل یہ تلقین کیا تھا کہ مادہ پڑھ کر بڑا آدمی بننا میرے بھیٹی نہیں آپ میرے بھیٹے ہے اپنی والدہ اور میرا سر فخر سے بلند کرنا ۔ کچھ عرصہ بعد ماہ رنگ نے بولان میڈیکل کالج میں میرٹ پاس کر کے ایم بی بی ایس کی سیٹ اپنے نام کرتے ہوئے ایک ڈاکٹر بن گئی جو اپنے لوگوں کے زخموں کو مندمل کرنے کی خواہش سے چلتی تھی ۔ دوران تعلیم وہ لمحہ بہ لمحہ اپنے ابا کے تعلیمات کو ترجیح دیتے ہوئے مختلف سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کیں ، مختلف لکھاریوں کے کتابیں پڑھیں اور سیاسی محفلوں میں شرکت کرتے ہوئے سیاسی میدان میں اتر گئے ۔ سیاسی جہدوجہد ، منگچر کے سرزمین میں اپنے والد کے قبرستان میں جاتے اس سیاسی تعلیمات کو ترجیح دیتے ہوئے مظلوم اور محکوم قوموں کے درمیان وہ ایک ممتاز شخصیات میں شامل ہوکر سیاسی سرکلز میں نمایاں کردار ادا کرتے رہیں۔

ایک مسیحا کو طور پر بلوچ قوم میں عزت اور احترام ملی، لیکن اپنی والد کے نظریات کے ساتھ اس کی وابستگی تھی جو کہ اس کے رگوں میں پیوست تھی جس کی وجہ سے ماہ رنگ سے کامریڈ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بن کر ایک رہشون بن گئ ۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمجھ گئ تھی کہ بلوچ قوم کو یکجا کرنے میں بلوچ قومی تحریک اپنے مقاصد کے جانب گامزن ہو سکتی ہے، کیونکہ ریاست کی طرف سے بلوچ قوم کی سرزمین میں بیرونی سرمایہ کاروں کو لا کر بلوچستان اور بلوچ قوم کی شناخت کو مٹانا مقصود ہے، بلوچستان کو ایک بار پھر تقسیم در تقسیم کرکے ہڑپ کیا جائے ۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف لواحقین کی تحریک نے بلوچ قوم کو ایک پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ لیڈرشپ دی ، اب بلوچ قوم میں خواتین لیڈرشپ میں شامل ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، سمی دین جان بلوچ ، ڈاکٹر صبیحہ ، بیبو بلوچ ، ماہ زیب بلوچ ، گلزادی بلوچ ، ساہرہ بلوچ ، سعیدہ بلوچ اور درجنوں نام شامل ہیں جو حقیقی لیڈرشپ کوالٹی رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، سمی دین جان بلوچ ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اور دیگر نے بلوچ قومی تحریک کو ایک نئی توانائی بخش دی۔ اس تحریک نے پورے خطے کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اپنی منزل کی جانب رواں ہیں ، بلوچ قوم پرست رہنماؤں ، وکلاء ، قبائلی رہنماؤں ، طلباء تنظیمیں ، خواتین ، بزرگوں کو اپنے جانب متوجہ کرکے اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنے حقوق کیلئے جہدوجہد کریں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی’ آواز بنیں کیونکہ اس کے موقف واضح ہیں یکجہتی کمیٹی کی جہدوجہد کوئی مراعات کیلئے نہیں ہیں بلکہ ایک ایسی مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے ہیں جہاں ہر بلوچ عزت اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سمیت کارکنوں کو مختلف دشواریوں کا سامنا ہے وہ وہی قوتیں ہیں جنہوں نے بلوچستان کو پچتر سالوں سے جہنم بنایاہے ہے وہ وہی عناصر ہیں جنہوں نے بلوچستان کے ساہل وساہل ، گوادر ، سندک ، ریکوڈک ، سوہی اور دیگر قدرتی وسائل کو ہڑپ کررہے ہیں یہ وہی سامراجی قوتیں ہیں جنہوں نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا آغاز کیا ، سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کو سالوں سے اپنے ٹارچر سیلوں میں غیر قانونی طور پر رکھا ہے ۔ ان قوتوں نے بلوچ میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کو شھید کیا ، اس کی واضح مثال بلوچستان سے کئی اجتماعی قبروں کے دریافت ہونا ۔ حالیہ گوادر میں بلوچ راجی مچی کو سبوتاژ کرنے او پُرامن قافلوں کو روکھے رکھ کر پر امن اجتماعات کو پرتشدد بنایا جس جی وجہ سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تین کارکنان نے جام شھادت نوش کی اور سینکڑوں کی تعداد میں فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہوگئے جو آ ج بھی زندگی اور موت کے کشمکش میں ہیں ۔ لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سمیت کارکنان بے خوف ہے کیونکہ بلوچ قوم کو بہادری اور دلیری ورثے میں ملی ہے بلکہ یکجہتی کی کاروان اپنے رستے میں آنے والے ہر مشکل کو دیدہ دلیری سے سامنا کرنے کو پر امن طریقے سے تیار ہے۔

اس کاروان میں صرف ایک جھتہ نہیں بلکہ ہر بلوچ شعوری طور پر اس مقصد کو لے کر اپنا اپنا نمایاں کردار ادا کررے ہے یہ جہدوجہد بلوچ قومی سؤال کا نمائندہ جماعت ہے اس فورم کے ساتھ ہر مظلوم اقوام کی نمائندگی ہے ہر قوم کی بقاء کی جنگ ہے، بلوچستان کے تاریخ کو مسخ کرنے کے خلاف مظلوم اور محکوم کی جنگ ہے۔

بلوچستان میں ایک نمائندہ جماعت کے طور پر ہر بلوچ کا عروج مزاحمت کی پائیدار طاقت کا ثبوت ہے ۔ اس جہدوجہد کی کہانی اک یاد ہے کیونکہ یہ زبردست مشکلات کے باوجود انسانی خوف اور جبر کا سامنا کرسکی ہے ۔ بلوچستان کے ہزاروں شھداء بلے جسمانی طور پر جدا کہے گئے ہو مگر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے زریعے ان کی آ واز بلوچستان کے پہاڑوں اور وادیوں میں گونجی رہتی ہیں جیسے شھید غفار لانگو کے جسدِ خاکی کے سر پر کامریڈ ماہ رنگ بلوچ اپنی خاندان اور اپنے ابا جان کے سیاسی ساتھیوں سمیت فریاد گھونج رہی تھی یہ وہ دن کی پکار ہے جس نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کی واضح مثال بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کاروان کا سینکڑوں کی تعداد میں ہر شہر ، قصبہ ، گاؤں میں استقبال اور انقلاب زندگ بات کے نعرے لگ رہے ہیں۔

جبری گمشدگیاں ، مرواہے عدالت قتلیں ، اور ظلم جبر کی کے خلاف جنگ ہر محاذ پر جاری ہیں اور ان کے ساتھ بلوچستان کی بقاء کی جنگ زندہ و تابندہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔