مزاحمتی سیاست کا ابہار – ٹی بی پی اداریہ

299

مزاحمتی سیاست کا ابہار
ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان میں دو ہزار نو کو پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کیا گیا، اُس کی ساتھ ہی انسداد انسرجنسی پالیسیوں کی بنیاد رکھی گئی اور بلوچستان جبری گمشدگیوں کے بعد مسخ شدہ لاشوں اور اجتماعی قبروں سے آشنا ہوا۔ سیاست پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جبری پابندی لگا دی گئی، جِس کے سبب بلوچ قومی سیاست ایک دہائی تک جمود کا شکار رہی لیکن حالیہ سیاسی ابہار کے بعد بلوچستان میں ریاستی جبر کے خوف تلے دبی بلوچ قومی سیاست انگڑائی لے رہی ہے۔

سیاسی سرگرمیوں پر جبری قدغنوں، ابلاغی ذرائع منقطع ہونے، سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی ؤ گرفتاریوں اور ریاستی اداروں کی طاقت کے بے دریغ استعمال سے نہتے لوگوں کو زخمی اور جان بحق کرنے کے باوجود بلوچ یکجہتی کمیٹی نے مکران، جہلاوان، سراوان، رخشان اور کوئٹہ میں قومی اجتماعات منعقد کرکے بلوچ سماج کو سیاسی طور پر متحرک کیا ہے اور بلوچ قوم کے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کی انہوں نے حمایت حاصل کی ہے، جو سخت ترین مشکلات کے باجود ہزاروں کی تعداد میں اُن کے اجتماعات میں شامل ہوکر ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد کا حصہ بن رہے ہیں۔

بلوچ دانشور متفق ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گوادر میں راجی مچی ؤ بلوچستان بھر میں قومی اجتماعات سے بلوچ قومی سیاست کو دوبارہ متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کا ریاستی طاقت کے سامنے جھکنے سے انکار، جبر کے خلاف غیر متزلزل موقف اور جہد مسلسل کے فیصلہ سے بلوچ قومی سیاست پر دور رَس اثرات مرتب ہونے کے آثار ہیں۔

پاکستان میں قومی حقوق ؤ آزادی کی تحریکوں کو جبر ؤ سفاکیت کے ذریعے کچلنے کی تاریخ رہی ہے اور بعید نہیں کہ ریاستی مقتدر ادارے بلوچستان میں ابھرتی سیاسی مزاحمت کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں لیکن ریاستی جبر کے خلاف حالیہ مزاحمتی سیاست سے واضح ہے کہ ریاستی طاقت کے استعمال سے بلوچ قوم خاموش نہیں رہے گی اور بلوچستان میں مزاحمتی سیاست مزید شدت کے ساتھ ابھرے گی۔