مذمت کی فرمائشیں اور بلوچ ۔ سنگر زاد

651

مذمت کی فرمائشیں اور بلوچ 

تحریر: سنگر زاد 

دی بلوچستان پوسٹ 

 

بلوچ اور اس سے مذمتی فرمائشوں کی تاریخ بھی بہت لمبی ہے مگر اتنی پرانی بھی نہیں گوکہ اگر کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو اس پر مذمت کی فرمائش ورنہ “بلوچ جنگ و مزاحمت ” کے وجود پر ہر بلوچ سے مذمت کی کروانا پاکستان کی تاریخ جتنی پرانی ہے جیسے روایات میں ہے کہ بابو نوروز کی مزاحمت کے وقت بلوچ نوابوں اور سرداروں کی لمبی لائن ایوب خان سے (معذرت) مذمت کرنے گئے تھے۔ اس سے قبل فرنگی سامراج “بلوچ سورش” پر بگی کھینچ سرداروں کو بلا کر مذمت کروایا کرتے تھے۔ 

ماضی قریب میں ایسی فرمائشیں نواب خیر بخش مری ، غوث بخش بزنجو ، عطا اللہ مینگل ، نواب اکبر بگٹی اور نیشنل پارٹی ، BNP جیسی لچکدار قوم پرست جماعتوں سے لیکر ہر اس عام بلوچ جو کسی معمولی عہدے میں نمایاں مقام رکھتا ہو یا بلوچ طالبعلم ہو اس سے ہر واقعہ پر ” پہلے مذمت کرو ” کی فرمائش کیا جانا نا نیا ہے نا پرانا اور خدا ناخواستہ جواباً وہی بلوچ پوچھ بھی لے کہ کیا ” آپ بھی ستر سالہ جبر و نسل کشی پر مذمت کرتے ہیں تو آپ ” بلوچ دہشتگرد” یا اسکے ہمدرد یا پھر ترجمان ڈکلیئر کردیے جائیں گے۔ 

” مذمت اور محب وطنی ” کا زکام صرف بلوچ قوم پرستوں پر نہیں گرا بلکہ محب ابن محب یعنی دلال ابن دلال جیسے پارلیمان میں بیٹھے بکاؤ مال بھی اس کی زد میں رہتے ہیں۔ جو ہر وقوعہ کے بعد جب تک اپنا ایک مکمل پیراگراف کی صورت مذمتی پوسٹ ، بیان یا تحریری مذمت پیش نہیں کردیتے انکی مستقبل کی حب الوطنی (سیٹ ) خطرے میں رہے گی۔ 

اس اثنا میں ہر پارلیمانی بوٹ چاٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ میں فلاں سے پہلے بیان دیکر خود کو زیادہ ہی لائق اور فرماں بردار پیش کروں اور بصورت تاخیر ” معذرتی بیان ” بھی دیئے جاتے ہیں کہ ” معذرت میں بروقت مذمت نہیں کرسکا وگرنہ میں 7 پشت آپکا فرماں بردار ہوں “

اب تو نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ کمانڈنٹ صاحب کہ واٹس ایپ سے پہلے ہی اکثر و بیشتر بلوچ پارلیمانی ٹاوٹس مذمت مذمت کرتے نظر آتے ہیں ، جنکی تعداد میں اصافہ ہونے کی صورت ، دلال مافیہ کی آپسی چپقلش بھی نیا رنگ پکڑ رہی ہے یہی وجہ ہے مذمت کرنے میں ایک نیا مقابلہ جاری ہے۔ 

خیر ” مذمت کرو اور اپنی پوزیشن واضح کرو ” کو پنجاب و وفاق میں زیر تعلیم بلوچ طلباء بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہوں گے جنھیں پنجاب و وفاق بھر کے تعلیمی اداروں میں زیر بحث لاکر اول تو استاذہ سے لیکر فیلو طالبعلم تک مذمت کے بعد ششم ماہی فوجی سیشن بھی منعقد کئے جانے لگے ہیں جہاں ” میں مستقبل میں بھی مذمت کروں گا ” جیسے حلفیہ بیان لیے جاتے ہیں ، کمانڈر صآحب بذات خود یونیورسٹی کے تمام بلوچوں کو سیشن کے نام پر بلاتے ہیں پھر ڈگری کے بعد ” کہاں جاو گئے ” جیسے سوالات تو معمول ہیں۔ 

دوران بحث بلوچ طالبعلم اپنے مذمتی ریمارکس دینے کے بعد اپنا اپونین دے سکتا ہے وگرنہ بصورت دیگر کاؤنٹر سوال کرنے والا بھی دہشتگرد ، ہمدرد اور ترجمان ہوگا۔ 

حالیہ لانگ مارچ کے دوران لانگ مارچ کے شرکا یعنی لاپتہ افراد کے خاندان سے ہر شہر خصوصاً اسلام اباد میں ” پہلے مذمت کرو ” کا سیشن چلتا رہا جو پورے پاکستان نے دیکھا، پاکستانی صحافی مائک لیکر ہر اس ماں کے پاس گئے کہ ( First condemn BLA ) اور پھر بتاؤ کہ تمہارا کون لاپتہ ہے اور کیوں لاپتہ ہے ؟اور پنجابی مظلوم صحافی اس 14 سالہ جبری گمشدگی کو دورانِ انٹریو جواز بھی دئیے جاتے رہے۔ 

اس ماں سے کہا جاتا کہ ” تھپڑ کے بدلے تھپڑ ” کی مذمت کرو جو 14 سال سے ہر قانونی ، عدالتی اور آئینی طریقہ سے مایوس کرائی جاچکی ، وہ مائیں بہنیں جن پر بلوچستان سمیت پنجاب کے ہر شہر سے لیکر پورے اسلام آباد نے تشدد کو براہ راست دیکھا اس ماں سے بھی کہا گیا کہ ” بلوچوں کے تشدد” کی مذمت کرو۔

وہ خاندان ، وہ مائیں جو آج سے چند سال پہلے بلکہ تاحال بھی جن کے پاس نا میڈیا ہے نا میڈیم ، نا ایسا روڈ کہ جسے بند کرکے وہ عالمی دنیا یا حتاکہ پاکستان بھر تک اپنی بات پہنچا سکیں ، انکے پاس ایسا سورس بھی نہیں کہ دنیا کو بتا سکتی کہ اسکی کتنی نسلیں زندان میں قید ہیں مگر آج وہ ماں اگر بات کرنے کے قابل ہوئی یا کسی ریلی دھرنے کی صورت اپنا بیان ریکارڈ کرا پارہی ہے تو اس سے فرمائشی مذمت کی فرمائش کی جارہی ہے۔ 

اور تاثر دیا جارہا ہے کہ مہرنگ ، سمی سمیت بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین مذمت نہ کرنے پر پنجابی استحصال میں شریکِ جرم ہیں یوں پورا پاکستان بلوچوں کا مجرم نا ہوا جو 70 سال سے خاموش تماشائی رہتا چلا آرہا ؟

اعثر اب یہ کہ جو بلوچ بھی صاحبِ آواز ہے یا اسے چند لوگ جاننے لگے ہیں وہ بلوچوں کے ساتھ ساتھ پنجابی و پاکستانی مسائل سمیت فوجیوں کیلئے بھی آواز اٹھائے ؟ کیا عجیب مضحکہ خیزی ہے ؟

یعنی بلوچ ، مظلوم کیلئے بھی آواز اٹھائے اور ظالم کیلئے بھی ؟ مقتول مرنے سے پہلے قاتل کیلئے آواز اٹھائے ؟ وگرنہ بصورت خاموشی یہ سب عناصر پاکستان دشمن، انڈیا کے ایجنڈے اور مسلح تنظیم کے ترجمان و ہمدرد بن جائینگے ؟

یعنی راشد ، ذاکر ، زاہد ، شبیر ، سمیع اللہ اور ڈاکٹر دین محمد سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے بچوں کا کیس پیش کرنے سے پیلے

تو یوں پورا پاکستان بلوچ و بلوچستان کے استحصال ، جبری گمشدگی اور نسل کشی پر شریکِ جرم ہے ، اگر خاموشی شریکِ جرم کا ثبوت ہے یا مذمت نا کرنا موردِ الزام ہے تو پاکستان کا بچہ بچہ ، ہر مرد و عورت بلوچ عوام کی مجرم ہے۔

70 سالہ جبر و ستم پر پورے پاکستان نے لب کشائی نہیں کی ، کسی پاکستانی سیاسی یا ایکٹوسٹ نے مہرنگ جیسی ہزاروں بلوچ بیٹیوں کے منظر عام پر آنے تک اسکے باپ کی مسخ لاش پر مذمت نہیں کی، کسی نے سمی دین کے باپ کی جبری گمشدگی پر مذمت نہیں کی ، کسی نے ہزاروں لاپتہ افراد پر مذمت نہیں، آج اگر وہ کمزور سی آواز رکھتے ہیں تو ان سے اپنی فرمائشی مذممتوں کی فرمائش بھی مت کریں۔

اگر پاکستان کے پارلیمانی سمیت عام پاکستانی و بلخصوص پنجابی عام و خاص نے مذمت نہیں کی تو کیا وہ بلوچ نسل کشی میں شریک جرم ہیں ؟

 جیسے کسی زمانے میں راولپنڈی میں کی ایک مارکیٹ میں ایک دھماکہ ہوتا ہے “بدقسمتی” سے کوئی بلوچ تنظیم کا اس سے تعلق نکل آیا ۔۔

پھر کیا تھا کہ اسلام آباد سے لاہور تک تقریباً ہر تعلیمی ادارے میں ” بلوچ v/s مذمت کرتے ہو ؟” شروع ہوگئی

ہم چونکہ پنجاب میں نئے وارد ہوئے تھے ، اس لئے پنجابی مذمتی موڈ سونگ کو بہت کم ہی پرکھتے تھے صبحِ اٹھ کر یونیورسٹی کی طرف جاتے رستے میں تمام تر آنکھیں میرے لباس پر تھی گویا کل رات میڈیا ” بلوچ دہشتگرد” کا حلیہ دیِکھا چکا تھا اور میں اپنے دہشتگرد یا اسکا ہمدرد قرار دیئے جانے پر بالکل انجان یونیورسٹی کی طرف جاتے ہوئے سینکڑوں گھورتی آنکھوں کو دیکھتا گیا۔ انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بھی فوجی بن کر اول تو ” کون ہو کہاں سے کہاں جارہے کیوں جارہے ہو” پوچھتے اور ساتھ ہی لگے ہاتھوں مذمت بھی کروا لیتے۔ 

خیر جیسے تیسے ہی میں کلاس روم میں انٹر ہوا تو پنجابی فیلوز کی طرف سے وہی سوالیہ نگاہیں دیکھنے کو ملیں۔ انکی فرمائشی نگاہوں میں تھا کہ میں گلے میں مذمت کا پمفلٹ لٹکا کے داخل ہوتا۔ 

ہمارے ایک نہایت ہی دین دار ٹیچر صاحب کی پہلی کلاس تھی وہ کلاس روم داخل ہوئے کلاس کا آغاز ہوتے ہی مذہبی درس تو لازمی تھا ، اب مجھ انجان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا پوری کلاس میں سیکولر کافر بھی میں ہی ہوں باقی سب جدی پشتی پکے مسلمان ،

کچھ وقت کے بعد جب تھوڑی سی خاموشی ہوئی تو ” ” بلوچ ، بلوچستان ، دھماکہ ہوگیا ، ہائے ہائے اف اف “ٹاپک چل جاتا ہے 

موضوع چھڑنے کے ساتھ ہی تمام کلاس کی فرمائشی نگاہیں ” کافر سیکولر غدار و مشکوک بلوچ ” یعنی مجھ پر تھی کہ آیا اسکے خیالات کیا ہوں گے تو اب کچھ لمحہ گزرنے کے بعد استاد محترم میری طرف مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ” آپ بھی تو بلوچی ہو ، جیسے عام تاثر دیکھنے کو مل رہا کیا آپ سب اس زوایہ سے سوچتے ہیں ، کیا آپ بلوچی دہشتگردی کو صحیح سمجھتے ہیں یا مذمت کرتے ہیں”

میں نے سادہ الفاظ میں مذمت سے پہلے غلطی سے پوچھ لیا کہ آیا اس کلاس میں بیٹھے 55 طلبا سمیت آپ خود ، 65 سالہ بلوچ کش جنگ اور اس میں مارے گئے ہزاروں جوان ، ٹیچر ، ڈاکٹر ، لاکھوں متاثرین ، مسخ لاش ، تباہ مارکیٹ ، چھینا گیا کاروبار ، ہزاروں چیک پوسٹ کی ذلالت ، لاپتہ افراد ، بیوہ عورتوں سمیت ریاست کی طرف سے کئے گئے ہزاروں دہشتگردانہ عمل کی لسٹ بنا کر پیش کی کہ کیا اپ میں سے کوئی ، کسی ایک واقعے پر مذمت کرنا پسند کریں گے۔ میرے یہ کہنے کی دیر تھی کہ المختصر سر نے مجھے دہشت گردوں کا حامی ، ہمدرد اور ترجمان بنا دیا ۔

چونکہ یہ ایک معمولی سیا وقوعہ تھا اور پنجاب وفاق میں پڑھنے والے بلوچوں سے مذمتی فرمائیشوں کے سلسلہ کا ایک واقعہ بھی

 لیکن اس سے قبل یا اس کے بعد اج تک جہاں بھی بلوج اور غیر بلوچ یعنی کہ بلوچ اور اہل پاکستان کا جہاں سامنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے یہی کہا جاتا ہے کہ “بلوچستان میں پنجابی کو کیوں خطرہ ہے کہ اپ اس کی مذمت کرتے ہیں”

 اور اگر کوئی کاؤنٹر سوال کیا جائے تو سمجھ جائیں کہ اپ کو وہ اس وقت دہشتگردوں کا حامی بنا چکا ہے_

خیر اس طرح کے مختلف واقعات ہیں جیسے کہ 2010 میں ہونے والی نواز شریف اور عطاءاللہ مینگل کی ملاقات کے دوران مذمت کا ذکر ہو ، یا شہید بالاچ مری کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو کی بابا خیر بخش ملاقات کے وقت یہ کہنا کہ یہ اس طرح کے عوامل رد عمل میں ہوتے ہیں ، یعنی پہلی گولی 70 سال سے بلوچ ہی چلا رہا اور آپ بس بالاچ کی تعزیت قبول فرما کر ساتھ ہی دہشت گردی کی مذمت فرما دیں۔

مگر آج ہر ایک بلوچ کا جواب ایک ہی ” پہلے تم 75 سال کے اندر مارے گئے ہر بلوچ ، اٹھائے گئے ہزاروں لاپتہ افراد ، 25 ہزار مسخ لاشیں ، فیک انکاؤنٹرز ہمارے معاشی استحصال ، درجنوں آپریشن ، ہمارے اکابرین کے قتل پر ، بلوچ نسل کشی پر غیر مشروط معافی کے ساتھ مذمت کرو پھر ہم سے مذمت کی توقع رکھو “