مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ ریاست سازگار ماحول پیدا کرے -ماہ رنگ بلوچ

389

گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دھرنا آج آٹھویں روز بھی جاری ہے۔ شہر میں انٹرنیٹ و دیگر نیٹورک سروسز بندش کا شکار ہیں جبکہ گوادر جانے والے راستوں پر بدستور فورسز تعینات ہیں جنہوں نے آمد ورفت بند کردی ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ گوادر سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ معزز بلوچ راج اور دنیا بھر میں ہمیں سننے اور ہماری آواز بننے والوں، جیسے کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ ہم گزشتہ چار دن سے آل پارٹیز کی ثالثی میں ریاست کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں۔ مذاکرات کے دوران بار بار ریاست سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ ریاست سازگار ماحول پیدا کرے، بلوچستان بھر میں پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت اور تشدد کا استعمال بند کرے، راستے اور انٹرنیٹ کھول دے جن کی بندش سے پورے مکران میں خوراک اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ گزشتہ 8-9 دنوں سے لوگوں کے اپنے گھروں میں کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں ہو رہا۔ لیکن ریاست ہمارے آئینی اور قانونی مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے مذاکرات کے نام پر ہمیں مسلسل ہراساں کررہی ہے اور دھمکیاں دے رہی ہے کہ اگر دھرنا ختم نہیں کیا گیا تو قتل عام کرکے دھرنے کو ختم کروائیں گے۔

انہوں نے کہ اکہ ہم چار دن سے مذاکرات کے دوران بار بار ریاست سے کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان بھر میں پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت اور تشدد کا استعمال بند کریں تاکہ یہ مذاکرات آگے بڑھ سکیں، لیکن ریاست طاقت اور تشدد کے استعمال کو بند کرنے کے بجائے اس میں شدت لارہی ہے۔ ان چار دنوں کے جاری مذاکرات کے دوران بھی کوئٹہ اور کراچی سے پرامن مظاہرین کو گرفتار کیا گیا اور ان پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا۔ جبکہ کل ریاست نے درندگی کی تمام حدیں پار کردیں، نوشکی میں پرامن مظاہرین پر فائرنگ کرکے ایک نوجوان کو شہید جبکہ متعدد کو زخمی کردیا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ریاست میں قانون اور آئین نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب ریاست نے اپنے انتظامیہ اور وزراء کو ہمارے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے بھیجا ہے، یہاں انتظامیہ اور وزراء ہمارے ساتھ وعدہ کرتے ہیں کہ اب کوئی طاقت اور تشدد کا استعمال نہیں ہوگا، لیکن دوسری جانب گوادر میں جاری مذاکرات کے دوران ہی نوشکی اور کراچی میں پرامن مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔ بربریت کی بدترین مثال قائم کی جارہی ہے۔

مزید کہا کہ ریاست پاکستان اپنے ہر قدم کے ساتھ ثابت کررہی ہے کہ بلوچستان میں پرامن احتجاج کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پرامن احتجاج کی اجازت تو خود پاکستان کا آئین بھی دیتا ہے، لیکن ریاست گوادر میں ایک پرامن دھرنے کے خلاف اپنی پوری طاقت بلوچ قوم کے خلاف استعمال کررہی ہے۔ یہ کونسا قانون ہے کہ پرامن دھرنے کے بدلے پورے بلوچستان کو گزشتہ دس دنوں سے مکمل سیل رکھا جائے؟ پورے مکران میں اس وقت کرفیو نافذ ہے۔ ریاست بلوچوں کو بندوق اور بھوک دونوں سے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرچکی ہے۔

رہنماؤں نے کہا کہ ہم ریاست پر واضح کرتے ہیں کہ آپ ظلم کی تمام حدود پار کرکے پورے بلوچستان سے لاکھوں کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کررہے ہیں۔ اگر اس بربریت اور درندگی کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو اس عوامی سیلاب میں آپ کی طاقت اور غرور سب غرق ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس وقت بلوچستان کی خطرناک صورتحال کا مکمل نوٹس لے۔ گوادر سمیت پورے مکران میں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کا نوٹس لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ہمارے مطالبات درج ذیل ہیں:

۱- مستونگ، تلار، گوادر، نوشکی اور تربت میں ایف سی کی فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والے مظاہرین کی ایف آئی آر کور کمانڈر پر درج کیا جائے۔

۲- ہوم ڈپارٹمنٹ فوری طور پر نوٹیفکیشن جاری کرے کہ مزید ریاستی فوج کی جانب سے کسی بھی قسم کے تشدد کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔

۳- وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ خود گوادر آئے اور ہمارے ساتھ پریس کانفرنس کرکے یہ اعتراف کریں کہ اس پورے دورانیے میں ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار خود حکومت بلوچستان ہے جنہوں نے اس عوامی پرامن پروگرام کو تشدد سے کچلنے کی کوشش کی تھی اور طاقت کے استعمال کا حکم پاس کیا۔ حکومت بلوچستان جانی و مالی نقصان کی مذمت کرے۔

۴- تمام مظاہرین جنہیں بلوچ راجی مچی کے حوالے سے گرفتار کیا گیا ہے یا گھروں سے چھاپے لگانے کے بعد جبری گمشدہ کیا گیا ہے، انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے اور تمام ایف آئی آرز خارج کیے جائے۔

۵- تمام راستے کھول دیے جائیں، گوادر سمیت مکران میں غیر اعلانیہ کرفیو فوری طور پہ ختم کیا جائے، گوادر میں پانی بحال کیا جائے، اور خطے بھر میں انٹرنیٹ سروسز فوری بحال کی جائیں۔

۶- حکومت پاکستان اس بات کو نوٹیفائی کرے کہ راجی مچی کے شرکاء یا مدد کرنے والے کسی بھی شخص کو نہ ہراساں کیا جائے گا اور نہ ہی مزید اس حوالے سے کوئی ایف آئی آر کی جائے گی۔ اور نہ ہی مستقبل میں کسی پرامن پروگرام پہ غیر ضروری طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔

۷- اس راجی مچی کے دوران ریاستی فوج اور خفیہ اداروں نے عام عوام کو جتنا مالی نقصان دیا ہے جن میں ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کرنا، گاڑیوں کو جلانا یا ذاتی سامان ضبط کرنا شامل ہے، حکومت بلوچستان ان تمام نقصانات کا ازالہ کرے گی۔