غدار عوامی تحریکیں
ٹی بی پی اداریہ
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے الزام عائد کیا ہے کہ “بلوچ یکجہتی کمیٹی تخریب کاروں کی پراکسی ہے، اُن کی نام نہاد لیڈرشپ کرمنل مافیا کی پراکسی ہے، اس پراکسی کو ایجنسیز کو بدنام کرنے کا کام دیا گیا ہے، بیرونی فنڈنگ اور بیانیے پر جتھا جمع کرنا ان کا کام ہے۔”
پاکستان میں جب بھی قومی حقوق اور قومی مسائل پر حقیقی عوامی تحریکیں جنم لیتی ہیں، ریاستی ادارے اُن پر غیر ملکی فنڈ لینے اور انتشار پہلانے کا الزام لگاتے ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے پہلے ایسے ہی الزامات حالیہ سالوں میں پشتون تحفظ موومنٹ پر لگائے گئے تھے، اس کے علاوہ “غداری” کے الزامات پاکستان میں ہر اسٹبلشمنٹ مخالف عوامی تحریک و شخصیات پر عائد ہوتے رہے ہیں لیکن ریاستی ادارے طاقت اور وسائل ہونے کے باجود محکوم قوموں کی تحریکوں پر لگائے گئے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی حلقے، بنگلہ دیش کے عوامی تحریک کی پرتشدد مزاحمت کے ذریعے حکومت کے خاتمے کی حمایت کی جارہی ہے لیکن بلوچستان میں ریاستی جبر پر خاموشی اختیار کرچکے ہیں اور ریاستی بیانیے کی پرچار کرکے بلوچ یکجہتی کمیٹی کو عسکری پروکسی قرار دے رہے ہیں، جِس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بلوچستان کی معروضی حقائق سے لاعلم ہیں اور ریاستی بیانیے پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔
بلوچ راجی مچی کو روکنے کے لئے ریاست نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور راجی مچی کے قافلوں میں شامل شرکاء کے زخمی اور جانبحق ہونے کے باجود گوادر، کوئٹہ اور نوشکی کے دھرنوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی شمولیت سے واضح ہوتا ہےکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک جتھا نہیں بلکہ عوامی حمایت پر قائم ریاستی جبر کے خلاف منظم تحریک ہے، جس کی قیادت غیر متنازعہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
گوادر کا محاصرہ کرکے بلوچ راجی مچی کا راستہ روکنے اور تخریب کاروں و کرمنل مافیا کی پروکسی قرار دینے سے قومی مسائل پر ابھری تحریک کو متنازعہ نہیں بنایا جاسکتا ہے اور سیاسی مزاحمت کو ریاستی جبر سے روکنے کی صورت میں بلوچ عوام کے پاس پرتشدد مزاحمت کی علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔