عمرو – مہران بلوچ

400

عمرو

تحریر: مہران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عمرو، آج پروم میں غروب آفتاب کے بعد پروم کی مست اور خوشگوار ہوائیں آپکے قصے کرتے ہیں۔ ایک ماں کی طرح جو ہر وقت سونے کے بعد اپنے بچوں کو سناتے ہیں، آج پروم کی مست ہوائیں ہر وقت آپکے قصے سناکر پروم کے لوگوں کو سلاتے ہیں، آج پروم آپ پہ ناز کرتا ہے۔

عمرو، تمیں پتا ہے تم نے مجھے کہا تھا کہ آجکل پروم کی وہ خوشگوار ہوائیں نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی، لیکن آج تیرے جانے کے بعد پروم پھر سے وشکوشیں پروم بن چکا ہے،  تم نے پروم کو پھر سے زندہ کیا ہے اور پروم کو یہ ثابت کرکے دکھایا کہ تیرے فرزند ختم نہیں ہوئے۔

عمرو، آج گوادر کے ہواؤں میں تیری مہک گھومتی ہے، گوادر میں جب سورج غروب ہوتے وقت سنجروو آپکے ہنستے چہرے اور بہادری کی گواہی دیتا ہے اور گوادر کے لوگ یہ نظارہ ایک شان سے دیکھتے ہیں، سنجروو میں آپکی تصویر نقش ہوتا ہے، سمندر کے ہر لہر آپکا نام لیکر فخر سے بولتا ہے کہ میرا محافظ سر بلند ہے، طلوع سحر آپکی وطن سے محبت کی، اپنے لوگوں سے مہر کی گواہی دیتا ہے۔

فدائی سربلند، ایک سربلند کرنے والا فرشتہ ہے

عمرو، آج تم مجھے ہر فدائی میں نظر آتے ہو، تیرے جانے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں وطن کے عاشق سربلند بننے کیلئے تیار ہیں، تم میرے لیئے اور اس قوم کیلئے ایک فرشتے سے کم نہیں ہو، تم نے ہمیں اپنے کسان سالی میں یاد دلایا کہ ہم کیا ہیں اور اپنے قوم کیلئے کس حد تک محبت کر سکتے ہیں۔

عمرو، تم ایک سچے قوم دوست، وطن دوست اور سچا عاشق ہو، تمارے جانے کے بعد اس قوم کو ایک حوصلہ ملا کہ ہمارے محافظ ختم نہیں ہوئے، نوجوانوں کیلئے تم ایک راھشون ہو، تمہیں پتا ہے آج ہر بلوچ تمھارا نام فخر سے لیتا ہے اور کہتا ہے کہ عمرو ہمارا زرپھاز ہے، جنہوں نے اپنی جان دی لیکن غلامی قبول نہیں کی، اور آخری دم تک اپنے زر کا حفاظت کرتا رہا۔

عمرو، تمہیں پتا ہے آج امک بہت خوش ہے اور ہر وقت کہتا ہے کہ عمرجان زندہ ہے، ہمارے ساتھ ہے، ہمارے سب کے دلوں میں ہمیشہ کیلئے زندہ ہوچکا ہے اور سربلند ہوچکا ہے۔

عمرو، تمہیں پتا ہے تیرے جانے کے بعد آج پروم نے بہت قربانی دی ہے، آج ہر کوئی سربلند بننے کیلئے تیار ہے، تم نے اپنے عمل سے انکو یہ یاد دلایا کہ وہ غلام ہے اور انہیں کیا کرنا چاہیے، تم نے یہ سب کو سکھایا کہ جنگ کے بغیر اور کوئی بھی راستہ نہیں بچا تمہارے پاس۔

برزکوہی نے تحریر کیا کہ “سربلند رواں تحریک میں جہدکاروں کے لیئے ایک ایسی تاریخی کتاب ہے، جسکا ہر سبق صبر، ہر ورق مستقل مزاجی، ہر باب خود آگہی، ہر لفظ کشادہ نظری اور ہر جملہ قربانی ہے۔ اسے پڑھیں، اسے جانیں اور اسے یاد رکھیں۔ آنسو سے لیکر مسکراہٹ کے تین سالوں کے بیچ کے راز کو خود تلاشیں اور اس پر چلیں۔”

عمرو، وطن تم پہ نازاں ہے، عمرو تم مہر اور مہر تم ہوں، آج اگر کسی کو مہر، حوصلہ، صبر و برداشت، عشق اور جندندری کا فلسفہ جاننا ہوگا تو تمہیں پڑھے گا، عمرو تم ایک سوچ ہو جو سوچ اس غلامی کی زنجیروں کو تھوڑ کر آزادی کا دن لائے گا

عمرو، آج تمہارا دیس مزاحمت کی ایک علامت بن چکی ہے، آج بلوچ کے بچے سے لیکر بوڑھے اور عورت سب اس غلامی کیخلاف جنگ لڑ رہے ہیں، آج ہر بلوچ سربلند بنکر دشمن کیلئے قہر بن چکا ہے، آج بلوچ کے نوجوان نے اس غلامی کی درد ، ریاست کی اصلی شکل کو سمجھا ہے، اور ہر دن اسکے خلاف جنگ کررہے ہیں، شہید ہو رہے ہیں۔

عمرو، تم نے کہا تھا کہ “ہمیں قومی مفادات کیلئے اپنی ذاتی خواہشات کو قربان کرنا ہوگا” آج تمہارا ہر لفظ ہر بات ایک چیدہ بن چکا ہے بلوچ نوجوانوں کیلئے۔

عمرو، آج تم گودی شارل، سمل، ریحان جان، سلال جان اور دوستوں کے ساتھ فدائیوں کی کچاری میں ہونگے اور فخر کرتے ہونگے اپنے قوم کو دیکھ کر، عمرو تم سب کا خون رنگ لائیگا، ہم اس ظالم ریاست کی زندگی کو قہر بنا دینگے اور پوری دنیا میں اپنے بلوچستان کو مزاحمت کا گھڑ بنا دینگے

عمرو، یہ میرا وعدہ ہے تم سے کہ تمھاری اور ریحان جان کی توپنگ کو کبھی زنگ نہیں لگنے دونگا، اس توپنگ سے  نکلی ہوئی ہر گولی دشمن اپنے سات نسل تک یاد رکھے گا، یہ وعدہ ہے میرا تم سے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔