عدم تنقیح طلب تنقید
ڈاکٹر صبحیہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“ہم باتیں بڑی کریں اور عمل نا کریں تو ہمارے لوگ مایوس ہوجائینگے، لیکن ایک بات کہوں جو آپکو مایوس ہونے نا دے کہ اس قوم میں ایسے فرزند بھی پیدا ہوئے ہیں، جنہوں نے پیغمبروں سے زیادہ کام کیا ہے۔”
شال جلسے میں میری مختصر سے دورانیے سے لیا گیا کلپ ہر جگہ استعمال ہورہا ہے کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ پیغمبروں کی شان میں گستاخی ہے، کوئی کہہ رہاہے یہ کفر ہے، کوئی کہہ رہا ہے کمیونسٹ ہے۔ ایک احساس جو خوشی کا حامل کہ قوم ہمیں سُنتی ہے اور ہر لفظ کو سُنتی ہے۔ اس پورے مکالمے میں اہم لفظ پیغمبر کئی افراد کو ناگوار گزرا ہے۔ اس بات کے لیئے توبہ / معافی جو بھی ضروری ہے، میں تیار ہوں کیونکہ اس عظیم تحریک کو ایک لفظ کے لیے کبھی تنقید کا نشانہ بننا نہیں چاہئے، یہ ہر اس شخص کے خون سے دھوکہ ہوگا جو اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے قربان ہوا ہے۔
لفظ پیغمبر فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہے پیغام پہنچانا۔ پیامبر دراصل فارسی کے دو الفاظ پیام اور بر کی مرکب اصطلاح ہے اور اِس کی جمع پیامبران کی جاتی ہے۔ اِس کے لیے اُردو میں اَور بھی الفاظ مستعمل ہیں جیسے پیغامبر،یا پیغمبر ، پیغام رساں ،نامہ رساں ،اور نامہ بر ، قاصد کا لفظ خاص طور پر اُس پیامبر کے لیے مستعمل ملتا ہے ،جو سرکاری اداروں میں پیغام رسانی کا فعل سر انجام دیتا ہو۔
اصطلاح میں لفظ پیغمبر رسول ،نبی ،پیمبر کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی پیغمبری:رسالت،نبوت،پیمبری۔‘‘(ص :185،ط:فیروز الغات)
اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ لغت کے اعتبار سے لفظ پیغمبر کئی معنوں میں استعمال ہوتا لیکن میرے اس پورے جملے میں میں نے کہیں بھی نہیں کہا کے “اللہ کے پیغمبر” البتہ جو اسے اسلامی رنگ دینا چاہتے ہیں یا نبیوں سے جوڑ رہے ہیں، تو ان لوگوں کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ کس لحاظ سے اس جملے کو گستاخ شمار کر رہے ہیں؟ کیونکہ دین اسلام کی رو سے گستاخ انبیاء علیہ السلام یا گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمار ہونے کے لیے انبیاء علیہ ااسلام یا آقا دو جہاں محمد مصطفی صلی علیہ وسلم کے متعلق کسی نازیبا بات کا ہونا لازم ہے یا کسی سنت سے انکاری ہونا۔ جیسے قاضی ثناءللہ پانی پتی رحمتہ علیہ کے اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے، جو کہ انہوں نے تفسیر مظہری میں ذکر کیا ہے۔
“من أدى رسول الله يصلی اللہ علیہ وسلم بطعن في شخصه أو دينه او نسبه أوصفة من صفاته أو يوجه من وجوه الشين فيه صراحتاً او كناية أو تعريضاً أو إشارة . كفر ولعنة الله في ال في الدنيا والآخرة واعد لهم عذاب جهنم ،۔تفسیر مظہری جلد 07 صفحه 382)
ترجمہ :رسول الله صلی اللہ وہ سلم کی شخصیت ، دین، نسب یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صفت پر طعن کرنا اور صراحتاً با کنایه با اشاره یا بطور تعریض آپ پر نکتہ چینی کرنا اور عیب نکالنا کفر ہے۔ ایسے شخص پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت اور اس کے لیے عذاب جہنم ہے۔”
لیکن میری کہی ہوئی بات میں کہیں بھی کسی طرح ایسی کوئی نا زیب بات نہیں ہے، جو گستاخی انبیاء اعلیہ السلام میں شمار ہو۔ میں واضح کرتی ہوں میرا جملہ کسی بھی طرح سے چاہے ہو وہ دانستہ طور پر ہو یا غیر دانستہ طور پر کسی پیغمبر علیہ السلام کے صفات سے انکاری نہیں نہ ہی میں انکی گستاخی کر سکتی ہوں۔ بلکہ میں نے کسی اچھے عمل کو انبیاء علیہ السلام کے عمل سے تشبیہ دی ہے۔ جو شرعاً نا جائز نہیں ہے۔ جیسے بعض احادیث میں آپ صلی علیہ وسلم کی کردار اخلاق عادت کے ساتھ بعض صحابہ رضی عنہ کو تشبیہ دی ہے وہ بھی تشبیہ من کل الجود کے لحاظ سے نہیں بلکہ تشبہ وجہ مشبہ کے لحاظ سے دی ہے جہاں جن مشترکہ عناصر کی وجہ سے ایک چیز کو دوسری چیز سے تشبیہ دی جائے اسے وجہ شبہ کہتے ہیں۔ اور یہاں قربانی کا وہ فلسفہ تھا جس کے وجہ سے میں نے انبیاء علیہ اسلام کی قربانی سے تشبیہ دی، جیسے یہ تشبیہ کرادر ،اخلاقیات اور سیرت میں بھی دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح عمل اور کردار میں بھی جیسے حدیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چال چلن، کردار، اور سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے” صحیح بخاری حدیث نمبر (6097)
جیسے کہ بعض عمل کا صحابہ رضی اللہ عنہ کے عمل کے ساتھ تشبیہ دی جاسکتی ہے، کسی شخص کو اس کے اخلاق، عمل یا جسمانی شکل و صورت وغیرہ میں کسی صحابی کے ساتھ تشبیہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، نہ ہی اس میں ممانعت کی کوئی وجہ عیاں ہے؛ کیونکہ یہ تشبیہ من کل الوجوہ نہیں ہے، اس لیے اگر آپ کسی شخص کو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ جیسا بہادر کہیں، یا سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ جیسا عالم کہیں، یا کسی اور صحابی جیسا طاقتور کہیں، یا سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ جیسا خوب صورت آواز والا کہیں تو یہ جائز ہے یا اعمال کے لحاظ بھی اسکی عمل اس نگاہ سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بلکہ اگر ایسی تشبیہ صحابہ کرام سے بھی بڑی شخصیت کے ساتھ دے دی جائے یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تو تب بھی تشبیہ دینے سے منع نہیں کیا جائے گا؛ بشرطیکہ تشبیہ سے مراد نبیاء علیہ اسلام کی بعض ایسی عملی، اخلاقی صفات ہوں جو خصائص نبوت میں سے نہ ہوں۔بس جس عمل کی طرف میں نے تشبیہ دی ہے وہ عمل انبیاء علیہ السلام کے معجزات میں سے نہیں ہے نا صفات سے بلکہ وہ عمل سنت ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے قربانی کے فلسفہ کو واضح کر دیتا ہے اور اسی فلسفہ کو میں وطن کی قربانی سے جوڑ دیا جس میں صراحت کوئی گستاخی نہیں ہے ۔
قد لقيت جماعة من أصحابه مشايخ أئمة أكابر في أعيان هذه الأمة بمصر والشام وكلهم يعتقد فيه ذلك وأكثر منه مع إجلال له وتعظيم وتوقير حتى حملني ذلك منهم على أن قلت: لقيت جماعة فضلاء فازوا … بصحبة شيخ مصر
الشاطبي وكلهم يعظمه كثيرا …. كتعظيم الصحابة للنبي۔( ابراز المعانی من حزر الامانی ،المقدس ابو شامۃ)
ترجمہ :یعنی میں مصر اور شام میں شاطبی کے ساتھیوں کی ایک جماعت سے ملا جو مشائخ ائمہ اس امت کے اہم لوگوں میں بڑے تھے اور وہ سب ان (شاطبی) سے عقیدت رکھتے تھے اور بہت زیادہ رکھتے تھے اور ساتھ میں ان کی بزرگی تعظیم اور توقیر بھی کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے اس فعل نے مجھے یہ کہنے پر ابھارا میں نے فضلاء کی ایک جماعت سے ملاقات کی جو شیخ شاطبی کی صحبت سے بامراد ہوئے۔ اور ان میں سے ہر ایک ان کی بہت تعظیم کرتا تھا جیسا کہ صحابہ کی نبی ﷺ کے لیے تعظیم ہوتی ہے۔
یہاں علماء کرام کی تعظیم کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تعظیم سے تشبیہ دی گی ہے نہ کہ آپ صلی اللہ کی ذات مبارک سے ان علما ء کرام کی ذات کو تشبیہ دی ہے جن کی تعظیم کی گئی ہے، مطلب اس عبارت سے یہ واضح ہوچکی ہے کہ میرے کہے ہوئے جملے کا تعلق تشبیہ من کل الجود سے نہیں ہے بلکہ وجہ شبہ سے جہاں ایک عمل کو دوسرے عمل کی مناسبت کی وجہ سے تشبیہ دی گیہے ۔
اگر اسکے بعد بھی میرے جملے کو گستاخی انبیاء علیہ السلام میں شمار کیا جاتا ہے تو میں اس کے لیے توبہ کرتی ہوں اور معافی مانگتی ہوں ۔لیکن تمام دالائل سے یہ بات واضحُ ہوتی ہے کہ میرا کہا جملہ کسی بھی لحاظ سے گستاخی کے ضمرے میں نہیں آتی لیکن کچھ لوگ اس کو گستاخی میں شمار کرنا چاہتے ہیں تو وہ رب تعالیٰ کے سامنے خود اسکے جوابدہ ہونگے۔ اسکے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کی ضرورت ہے تو میرے رب سے میں بار بار توبہ کرتی ہوں۔
اسکے بعد آتے ہیں ان تمام افراد کی طرف جو اس لفظ کو محسوس کرنا اور اس پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، بیشک آپ تنقید کیجئے کیونکہ دین اسلام کی دفاع آپ اپنا فرض سمجھتے ہیں، اسی طرح میں گزارش کرونگی کہ آپ دین اسلام کے زریعے اپنے وطن اپنے لوگوں کی حفاظت بھی اپنا فرض سمجھیان۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کو بھی اپنا فرض سمجھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ظالم کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے ۔
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْاط وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُo نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یََّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ.(الحج، 22: 39ـ40)
ان لوگوں کو (فتنہ و فساد اور اِستحصال کے خلاف دفاعی جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اللہ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)۔
ایمان کے لحاظ سے بلوچ قوم بھی مسلمان ہے اور ایک رب کائنات پر ایمان رکھتا ہے لیکن آج سر زمین بلوچستان پہ جبر اپنے انتہاء کو پہنچ چکی ہے، یزیدیت گلیوں میں راج کر رہی ہے۔ انسانی جان کی قیمت ختم ہوچکی ہے، آپ کی ماوں بہنوں کو روزانہ سڑکوں پہ گھسیٹا جارہا ہے، آپکے گھر میں انجان لوگ کسی بھی وقت آپریشن کے نام پہ کود پڑھتے ہے۔ جن گھروں و گدانوں کو جلایا جاتا ہے وہاں قران بھی نہیں بخشے جاتے۔ جبر و سفاکیت کے خلاف اعلان جہاد کرنا جن افراد کا فرض تھا وہ شائد بھول چکے، حسینی قول جنہیں نبھانا تھا وہ بھول چکے ہیں، جنہیں نماز جمعہ میں ہاتھ اٹھا کر اپنے رب سے دعا کرنا تھا کہ “ اے خدا اس جبر کے خلاف لڑنے والے فرزندوں کو فتح یاب فرما اور ہمیں انکے صفوں میں سے کر اور ہمیں ایمان عطا فرما کہ ہم خوف کھانے والوں میں شمار نا ہوں” مگر وہ بھول گئے، وہ جنہیں نماز ء استسقاء پڑھنا تھا کہ خدا اس مصیبت سے ہمیں چھٹکارا دلائے، جنہیں ان تمام زخمیوں کے لیے قران خوانی کروانی تھی اور انکے صحت کے لیے دعا کرنی تھی۔ جن میں حافظ القرآن حکمت اللہ بلوچ بھی شامل ہے، جو اس وقت زندگی اور موت کے کشمکش میں ہے، جنہں نوشکی میں اس وقت ایف سی اہلکاروں نے نشانہ بنایا، جب وہ پر امن احتجاج پہ بیٹھے تھے، مگر وہ بھول گئے۔ انہیں ہر جبر کے خلاف احادیث اور قرآن کا سہارا لیکر عوام کو یقین دلانا تھا کہ وہ راہ حق پہ ہے اور یقیناً باطل کے خلاف جنگ جہاد ہے مگر وہ بھول گئے۔ اس سرزمین پہ رہ کر جس طرح فلسطین کے لیے دعا مانگی گئی اس طرح بلوچستان کے حق میں دعا مانگنا بھول گئے۔ اسلام کو مکمل دین کہہ کر اسلام میں بلوچ سر زمین کے مسئلے کو بھول گئے۔ مگر اب بھی کچھ لوگ ہیں جو اس راجی مچی کے دوران تمام پیغامات کے اندر لفظ پیغمبر کو محسوس کر سکتے ہیں اور اس پورے تحریک کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
مجھے یقین ہے وہ اسی دین اسلام کے روشنی میں بلوچ تحریک کو بھی اسی انداز سے بیان کر سکتے ہیں، وہ حق اور باطل کو بیان کرنے کے لیے قرآن سے واضح دلیل دے سکتے ہیں، وہ یزیدیت سے لڑنے کو پیشہ ء حسینی ثابت کر سکتے ہیں، وہ یزید جو مسلمان تھا مگر اسکے خلاف نواسہ رسول جہاد کرتے ہیں، وہ اس فلسفے کو آج کے دور کے یزید کے برخلاف بیان کر سکتے ہیں، وہ اجتماعی دعا کر سکتے ہیں، وہ نماز استسقاع پڑھ سکتے ہیں، جب با پردہ اور عورتیں بچے اپنے لوگوں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پہ آئے ان کے خلاف تشدد کے استعمال کو غیر شرعی و غیر اخلاقی عمل قرار دیکر اسے خلاف عوام کو کھڑے ہونے کے تلقین کر سکتے ہیں۔
البتہ جو اس عمل سے عاری ہے جو حق و باطل کے فرق کو جھٹلا کر اس دور یزیدیت میں بھی جابر کو مسلمان کہہ کر کر ظلم جاری رکھنے کا حق دیتے ہیں وہ اپنا مقام کہاں دیکھتے ہیں۔ اس تحریک کا مقصد کا بلوچ نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے، لفظ پیغمبر کو خدا کے نبیوں سے جوڑنا، بلوچ یکجہتی کمیٹی کو مذہبی مسائل سے جوڑنا، اور انتشار پیدا کرنا انہیں کا کام ہے جو چاہتے ہیں کہ بلوچ نسل کشی جاری رہے۔
میرے الفاظ کی وضاحت دی چکی ہے، توبہ اگر مجھ پہ فرض بنتا ہے تو وہ بھی سچے دل سے کر چکی ہے، مگر وہ جو اس بات کے زریعے انتشار پھیلا رہے ہیں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف محاذ آرائی پہ آچکے ہیں، اب وہ بھی اپنا فرض نبھائیں، دین اسلام کی روشنی میں اپنے فرائض کو پورے کریں جابر کو للکاریں، بھلے ہی وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے الگ کام کریں مگر اپنا فرض نبھائیں ، نعرہ جہاد بلند کریں، یہ حق و باطل کی جنگ ہر شخص پہ فرض ہے، اور جو اس کے حق میں نہیں وہ قاتلوں کے صفوں میں اپنا شمار کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔