بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے جمعے کے روز کوئٹہ میں ہیومن راٹس کمیشن پاکستان کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سیاسی میدان ایک پارٹی ، یونین کا نہیں بلکہ پورے قوم کا ہوتا ہے،اسکی واضح مثال بلوچ قومی تحریک ہے، جب نیپ بنی تھی یا اس سے پہلے یہ پشنگوئی کی تھی جس طرز حکومت سے یہ ریاست چل رہی ہے یہ ریاست چل نہیں سکتی۔ اُس وقت انہوں نے صرف بلوچ کی بات نہیں کی تھی بلکہ اس ریاست میں بسنے والے ہر شخص کی بات کی تھی۔ آج یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بلوچ اس وقت صحیح تھی اور آج بھی صحیح ہے۔ جو دنگے فساد اس ریاست نے بلوچستان، سندھ یا خیبر پختونخواہ میں کئے وہ آج پنجاب تک پہنچ چکے ہیں ۔
انہوں نے کہا ہم بلوچستان سمیت ہر مظلوم تحریک کی حمایت کرتے ہیں ہم یہ فرق نہیں کرنے ہیں کہ یہ میرا تحریک ہے، یہ ہزارہ ، پشتون تحریک یا مزدور تحریک ہمیں سب کو ملکر جدوجہد کرنا ہوگا آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہ تباہ ہوچکی ہے یہاں ہر مظلوم قوم سمیت عام شخص کی بنیادی حقوق سلب کئے گئے ہیں ۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ریاستیں اس لئے بنائی گئی ہیں وہ شہریوں کو تحفظ دے سکیں ، اگر ریاستوں سے عوام کا تعلق ختم کیا جائے تو کچھ نہیں بچے گا، عوام ہی ریاست چلاتے ہیں طاقت عوام کی ہوتی ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ جو عوام آج دبا ہوا ہے اسے نہیں معلوم کا طاقت وہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان میں ہر طبقہ جبر کا شکار ہے ، چاہے وہ قومی تحریک سے جڑا ہو یا نہیں اسے دبایا جارہا ہے لیکن یہ بات کوئی نہیں کرے گا کیونکہ سب ریاست کے کنڑول میں ہیں یہ میڈیا بھی ریاست کے کنڑول میں ہے ۔
“عوامی تحریکوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سمجھوتے نہیں کریں، بلوچ یکجہتی کمیٹی اس ریاست کے لئے اس لیے درد سر بن چکی ہے کہ ہم نے اپنے سیاسی اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کی ہے اور آگے بھی نہیں کرینگے۔
ماہ رنگ بلوچ نےکہا کہ ہم نے ریاست کی ہر جبر کو دنیا کے سامنے رکھا ہے ۔ ریاستی جبر نے ایک احتجاج کو تحریک بنا دیا ہے۔ بلوچستان کو ایک فوجی قانون کے تحت چلایا جارہا ہے ، کس طرح بلوچستان کو بند کیا گیا کس طرح گوادر شہر کو 27 جولائی سے دس اگست تک محاصرے میں رکھ کر سیل کیا گیا ، گوادر میں ایک عورت روتی ہمارے سامنے آئی کہ فورسز نے ان کی گھر میں گھس کر بیٹی کی شادی کے زیورات ، نقدی اور فریچ تک اٹھا کر لے گئے ہیں ۔ ہمیں بلوچ، پشتون، ہزارہ ہر مظلوم کے اقوام کے درمیان مزید یکجہتی کی ضرورت ہے ۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی جمہوری سیاست اور آئینی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے لیکن ریاست سے سوال ہے کہ وہ کب جمہوری بنے گی یا وہ ہمیں بتائیں کہ آئین کی کونسی شق ہے کہ بلوچستان میں جس پر عملدرآمد ہورہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ گوادر میں ایف سی نے تشدد کا راستہ اپنایا ، لوگوں کو مارا، ایف سی پر ایف آئی آر تک نہیں کیا گیا انکی کوشش ہے کہ ہم تشدد کا راستہ اپنائیں آج بھی ہمارے ساتھیوں اور ہمدروں کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جارہا ہے ۔ ہم سب کو جدوجہد کرنا ہوگا آج بلوچستان میں مزاحمت ہورہی ہے اور اسے عوام لیڈ کررہے ہیں۔ طاقت ریاست کے پاس نہیں عوام کے پاس ہوتی ہے۔