سعدیہ بلوچ کی معطلی ریاست کی بلوچ طلباء کو اپنی قومی جدوجہد سے دور کرنے کی پالیسی کو واضح کرتی ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد

80

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ قانون کی طالبہ سعدیہ بلوچ کو معطل کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ نیز سعدیہ بلوچ کی معطلی اس ریاست کی بلوچ طلباء کو اپنی قومی جدو جہد اور حقیقی سیاست سے دور کرنے کی پالیسی کو واضح کرتی ہے۔ سعدیہ بلوچ جوکہ پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ قانون کی طالبہ ہیں۔جون کے دوسرے ہفتہ میں پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی اور ہراسمنٹ کیخلاف ایک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں سعدیہ بلوچ نے خطاب کیا تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے سعدیہ بلوچ کے اس احتجاجی خطاب کو بہانہ بنا کر انہیں معطل کردیا ہے۔ جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے اور سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ سعدیہ بلوچ نے حال میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے ہونے والی بلوچ راجی مُچی میں اپنے علاقے سے شرکت کی تھی، اور ان تمام اوقات میں ایک فعال کارکن رہی ہیں۔ اور اب ریاست اپنے زیرِدست ادارے سے اُن کو راجی مُچی میں شرکت کی پاداش میں سزا دے رہی ہے۔ اور اس معطلی کے ذریعے ریاست نے بلوچ قوم کو ایک واضح پیغام دیا ہیکہ بلوچ کیخلاف اس ریاست کے تمام ادارے ایک صفحہ پر ہیں۔
‎ترجمان نے کہا ہیکہ بلوچستان میں سالوں سے ریاستی ظلم و جبر اور تشدد کا سب سے زیادہ مثاثر طبقہ بلوچ اسٹوڈنٹس رہے ہیں۔ بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے فوجی کینٹ بن چکے ہیں ۔ وہاں سے کہی طالب علم رہنما ریاستی ٹارچر سیلوں میں قید اور ہزاروں بلوچ طلباء کی مسخ شدہ لاشیں بھی مل چکی ہیں، لائبریریوں کو نذر آتش کردیا گیا ہے۔اور کہی استادوں کو استاد صبا دشتیاری،زاہد آسکانی اور رزاق بلوچ جیسی قسمت ملی ہے جن کو شعور، تعلیم، درس و تدریس اور محض تدریسی عمل کا حصہ ہونے اور بلوچ کو تعلیم و شعور دینے کے عوض شہید کردیا گیا۔ انگلیوں میں گنے بلوچستان کے یونیورسٹی اور تعلیمی ادارے اب ڈھانچہ رہ چکے ہیں اب وہاں خوف اور ڈر کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ان تمام سے بچنے کیلئے اور پر امن ماحول میں پڑھنے کیلئے بلوچ طلباء نے پنجاب اور دیگر جگہوں کا انتخاب کیا لیکن وہاں بھی ہراسانی اور پروفائلنگ کا سلسلہ چل پڑا ۔ قائد اعظم یونیورسٹی کا واقعہ ہو یا پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے چیف سیکیورٹی آفیسر کے مدد سے طالب علم کی جبری گمشدگی ہو یا تاحال ایریڈ ایگریکلچر یونیورسٹی، راولپنڈی کے طالب علم فیروز اور احمد خان بلوچ کی جبری گمشدگی،ان تمام جرائم کے پیچھے عین ریاستی مشینری اور پالیسی ہے۔
‎ترجمان نے کہا کہ دراصل یہ ریاست بلوچ طلباء کو اپنے نام نہاد تعلیمی اداروں کے ذریعے سے ڈوسائل باڈی (Docile Body) بنانا چاہتی ہے تاکہ بلوچ طلباء اپنی اصلیت، قومی شناخت کو بھول کر ایک ایسا موضوع (Subject) بنیں جو صرف اس ریاست کے نوآبادیاتی منصوبوں کو آگے لے جاسکیں۔ اسکے برعکس جو بھی اپنی شناخت کو ترک نہیں کرتا تو یہی ریاست ایک وحشت ناک صورت میں ظاہر ہوکر ان سالم اور اپنی اصلیت پر باقیماندہ افراد کو سزا دیتی ہے جس کی مثال بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیاں اور مسخ شدہ لاشیں ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود بلوچ طلباء نے ہرگز اپنی قومی شناخت نہیں چھوڑی اور آج بھی اپنی قوم کے ایک بہتر مستقبل کیلئے کوشاں ہیں۔ اب بھی وقت ہیکہ ریاست اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے تاکہ بلوچ طلباء پر امن ماحول میں اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔

‎آخر میں ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس اسلام آباد اس موقع پر سعدیہ بلوچ کے ساتھ ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ طالبہ کی معطلی کا نوٹیفیکیشن فی الفور واپس لیا جائے۔