سربلندوں کا سربلند ۔ کاکا انور بلوچ

667

سربلندوں کا سربلند 

تحریر: کاکا انور بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

20اگست 2021 یوم شھادت کی یاد میں، میں اپنے لخت جگر فدائی سربلند عمر جان کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے اپنے وطن کے تمام شہدا کو سلام پیش کرتا ہوں۔

اپنے لخت جگر سربلند عمر جان کیلئے جتنا کہوں کم ہے لیکن آپ کی ایک بات ہروقت مجھے یاد آتی ہے، جو آپ نے فون کال پہ کہا تھا اور میسج بھیجا تھا جس میں ایک سے پانچ نمبر تک لکھا تھا اور خالی جگہ دئے گئے تھے۔ عمر جان نے کہا، ان نمبروں میں سے کونسا نمبر چنو گے؟ میں نے کہا بیٹا اس میسج میں کچھ لکھا تو نہیں ہے میں کیسے جانوں؟ آپ کیا چاہتے ہیں؟ میرے بار بار پوچھنے کے باوجود آپ ضد پہ ڈٹے رہے  اور کہتے رہے کہ ان نمبروں میں سے ایک نمبر چن کے دے دو۔ باپ اور بیٹے کی مہر و محبت اور جدائی زندگی ناجانتے ہوئے کہ کہیں ناراض نا ہو  مجبور ہوکر  میں نے ایک نمبر چن لیا، کچھ وقت گزرنے کے بعد آپ نے وطن کیلئے جان کا نذرانہ پیش کیا تو سب سے پہلے مجھے یہی میسج یاد آیا، بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس نمبر کا مطلب تھا۔ زندگی،محبت، فدائی، ایسے دو الفاظ اور تھے۔

آپ کا راہ و مشن فدائی تھا، دلی مراد اور قدر خداوندی کی اثرات آج کتنے ماوں بہنوں بھائیوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم کال پہ مصروف تھے اور آپ کی ہنسی میں نے سنی تھی، آپ بےحد خوش تھے۔ یہ باتیں مجھے باربار یاد دلاتے ہیں اور آپ کی شہادت کے بعد جدائی کے درد کے زخم کی مرہم آپ کا مشن جہد آجوئی خود درد اور دوا بنے۔ فدائی وطن مرہم کے ہوتے ہیں کہ آپ کی سوچ کہاں تک جاپہنچی جو ہمارے سوچ سے ہزار گنا زیادہ آگے تھا۔ آپ ہزاروں باپ بہن بھائی اور ماؤں کے دلوں میں زندہ رہے اور اصل ماں گلزمین کی بانہوں میں جاکے ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے اور اپنا فرض ادا کیا۔

اِس دن کے توسط اپنے تمام بلوچوں کے نام ایک پیغام!

انسان ہو یا ایک درخت اسے مدتیں لگتی ہیں، اپنے وجود کو زندہ رکھنے کے لیے، سالوں کی محنت سے جنما پھل ایک لمبے صبر کا نتیجہ ہوتا ہے، جو موسم کی ہر تپش سے گزر کر پھول سے پھل میں بدل کر اپنے وجود کا جواز بنتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آنے والی نسلوں کے لیے تخمِ زندگی کو بھی خود میں سماۓ ہوتا ہے جو پھر سے اسی زندگی کے گردش میں چل کر وہ سبھی دکھ سکھ دیکھ کر گزرتا ہے اور اپنے نسل کو بڑھاتا رہتا ہے۔

سچ، حقیقت، جنگی عمل اور کردار انسان سے جنم  لیتے ہیں،  اس میں  قدرت کا کرم، شفقت، حق خداوندی شامل ہو تو ڈر کس بات کی؟ ہمیں اپنے حق کی آواز کو بلند کرنے کے لیے پتھر کی طرح مضبوط ہونا چاہیے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہرا نہیں سکتا۔ ہمیں پتھر کی طرح مضبوط  ہونا ہوگا جو زمین پر ہزاروں کروڑوں سال  پڑے رہنے کے باوجود سورج کی گرم تپش، ہوائیں، قدرت کی بے رحمی، برداشت کرتے ہیں اور ہزاروں سالوں سے  اپنی جگہ  پر قائم دائم ہیں۔ جہد آزادی کا ہر ایک فرد، ہر ایک کردار، چاہے وہ سپاہی ہو یا رہبر سچ پر قائم رہنا چاہیئے، اسے  پتھر کی طرح مضبوط اور  ڈٹے رہنا ہوگا اور اپنے آنے والے نسلوں کو اس قدرت کے گردش کا سبق دینا ہوگا قائم دائم رہنے کا کردار عمل جاری ساری رکھنا ہوگا  جو ہماری بقا کے لیے جاری جنگ میں زندہ رہنے کا ضامن بنے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔