کوئٹہ سے جبری لاپتہ جیئند بلوچ اور شیر باز بلوچ کے لواحقین نے بلوچ یکجہتی کمیٹی و وی بی ایم پی کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 26 جلائی کی رات کو اسپنی روڈ کوئٹہ سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین جیئند بلوچ اور سینئر وائس چیئرمین شیر باز بلوچ کو چند دیگر دوستوں کے ہمراہ پولیس اور سادہ لباس میں ملبوس افراد نے جبری گرفتار کیا اور قائد آباد تھانہ لے گئے۔ جس کے اگلے روز ہی دیگر ساتھیوں میں کچھ کو رہا اور کچھ کو جیل منتقل کیا گیا جبکہ جیئند بلوچ اور شیر باز بلوچ کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جن کے متعلق تاحال کوئی اطلاع نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ سماج میں بی ایس او بلوچ طلبہ و نوجوانوں کیلئے سیاسی و سماجی علوم کے درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے جو تاریخی طور پر طلبہ و عوام کے مجموعی مسائل و محکومیت کے خلاف جمہوری و ترقی پسند اصولوں پر قائم نمائندہ تنظیم رہی ہے۔ مگر بد قسمتی سے پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچ سماج پر مسلط جبر و استحصال پر قائم پالیسیوں کے ذریعے ہر طرح کے سیاسی و جمہوری طرز جہدوجہد پر قدغن لگائی گئی ہے۔ حق کی بات کرنے یا احتجاج پر عوام پر گولیاں برسائی جاتی ہیں اور نوجوانوں کو جبری گمشدگی اور جھوٹے مقدمات کا نشانہ بنا کر ظلم کے خلاف ہر آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں جیئند بلوچ اور شیر باز بلوچ سمیت ہزاروں لاپتہ نوجوان ظلم کے خلاف آواز بننے کے پاداش میں جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے کئی سالوں سے ہمارے خاندان کو مسلسل جبری گمشدگیوں اور جھوٹے مقدمات کا سامنا ہے۔ 29 نومبر 2018 کے نیم شب ہمارے گھر سے فورسز نے جیئند بلوچ، انکے والد اور چھوٹے بھائی حسنین بلوچ کو جبری لاپتہ کیا۔ جیئند بلوچ کو 8 مہینوں تک ٹارچر سیل میں بنا کسی جواز کے قید رکھا گیا جبکہ کم عمر حسنین بلوچ پر جھوٹے مقدمات دائر کر کے کراچی جیل منتقل کیا گیا جو تاحال جیل میں قید ہے۔ ان واقعات سے خاندان کو مسلسل ذہنی اذیت و کوفت میں مبتلا کیا جاتا رہا ہے جو اب بھی جاری ہے۔ ہمارے خاندان پر مسلط اس ظلم سے ہم نجات اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یاد رہے 28 جولائی کو گوادر میں ہونے والے راجی مچی کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے باعث کوئٹہ اور بلوچستان بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کو گرفتار و لاپتہ کیا گیا جن میں جیئند بلوچ اور شیر باز بلوچ بھی شامل ہیں جنہیں نہ عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی جیل منتقل کیا گیا ہے۔ پولیس تھانوں سے نوجوانوں کا لاپتہ ہونا خاندان کیلئے باعث تشویش اور عوام کے تحفظ کے نام پر قائم ریاستی اداروں پر سوالیہ نشان بھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے ریاستی اداروں کو بھی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جیئند بلوچ اور شیر بلوچ زمہ دار اور پرامن سیاسی کارکن ہے جو اگر کسی بھی قسم کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں باعزت طریقے سے بازیاب کر کے ریاستی عدلیہ میں پیش کیا جائے۔ بصورت دیگر ہمارے خاندان کے بے گناہ نوجوانوں کو ماورائے عدالت عقوبت خانوں میں قید رکھنا ہمیں کسی صورت قبول نہیں۔ اگر جیئند بلوچ اور شیرباز بلوچ کو 11 اگست تک بازیاب نہیں کیا گیا تو فیملی کی جانب سے 12 اگست بروز سوموار ہدہ منو جان روڈ سے ایک پر امن ریلی نکالی جائے گی۔ ہم تمام ترقی پسند سیاسی و سماجی حلقوں سے گزارش کرتے ہے کہ جیئند بلوچ اور شیرباز بلوچ کے باحفاظت بازیابی کیلئے تعاون کریں اور ریلی سمیت سوشل میڈیا ٹرینڈز میں بھرپور شرکت کریں۔