جولائی 2024 میں پاکستانی فورسز نے 3 افراد ماورائے عدالت قتل کیے اور 35 کو جبری لاپتہ کیا۔ پانک

161

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق ادارے پانک کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق جولائی کے مہینے میں بلوچستان میں پاکستانی فورسز نے 3 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا اور 35 افراد جبری لاپتہ کیے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے ادارہ انسانی حقوق نے تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے ، بی این ایم کا ادارہ ’ پانک ‘ ہر مہینے بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر انگریزی اور اردو زبان میں تفصیلی رپورٹ جاری کرتا ہے جس میں جبری گمشدگان اور متاثرین کے مکمل کوائف شامل ہیں۔

رپورٹ میں جولائی کی رپورٹ کے مطابق 35 جبری لاپتہ افراد کے علاوہ کئی افراد کو غیرقانونی حراست میں رکھا گیا ۔ کیچ سے 8 ، آواران سے 7 ، خضدار سے 6 ، مستونگ سے 2 ، شال سے 13 ، خاران سے 5 ، گوادر سے 3 اور کراچی سے 5 بلوچ شہری جبری گمشدگی اور غیرقانونی گرفتاری کا نشانہ بنے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاج پر ریاستی اداروں کا تشدد معمول بن چکا ہے ، پانک کی رپورٹ میں اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے 28 جون 2024 کو پولیس کے ادارہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی ) نے ظہیر بلوچ کو گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا جس کے ردعمل میں لواحقین نے سریاب روڈ شال میں احتجاجی دھرنا دیا ۔ پرامن مظاہرین کو سننے اور مسئلے کے حل کی بجائے مظاہرین پر تشدد کرکے انھیں گرفتار کیا گیا۔

پانک نے اس کے علاوہ تربت میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے طویل دھرنے پر توجہ دلایا جہاں لواحقین 48 سے لے کر 45 ڈگری سیلیسئس درجہ حرارت کے باوجود احتجاج پر بیٹھے رہے جو تاحال جاری ہے لیکن اسے حکومت مسلسل نظر انداز کر رہا ہے ۔ ضلع خضدار کی تحصیل نال میں واقع گاؤں کوچہ کا محاصر کرکے حملہ کیا گیا ، خواتین پر تشدد کرکے انھیں زخمی کیا گیا اور 6 افراد جبری لاپتہ کیے گئے۔ لواحقین نے ردعمل میں سی پیک ایم 8 لنک روڈ کو بلاک کرکے دھرنا دیا انتظامیہ نے حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی کا وعدہ کیا لیکن اس پر عمل درامد نہیں ہوسکا۔

پانک کی رپورٹ میں دنیا بھر میں توجہ کے مرکز بننے والے بلوچ راجی مچی پر ریاستی تشدد کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ پانک کی رپورٹ کے مطابق 28 جولائی ، 2024 کو بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف گوادر میں جلسے کا انعقاد کیا۔ پرامن جلسے کو حکومت نے طاقت کے زور پر روکا۔مستونگ ، ھب چوکی اور تربت میں جلسے میں جانے والے شرکاء پر تشدد کیا گیا۔راجی مچی کے شرکاء کو جلسے میں شرکت پر روکنے پر بلوچستان بھر میں مظاہرے ہوئے ۔مظاہرین کے خلاف بلاجواز اور غیرضروری طاقت کے استعمال کے نتیجے میں مستونگ میں 14 مظاہرین زخمی ہوئے میں جن میں سے ایک عبدل مطیب بلوچ کی سر پر شدید اور گہری چوٹ لگنے سے حالت تشویشناک ہے۔تربت میں 25 مظاہرین پاکستانی فورسز کے تشدد سے زخمی ہوئے اور ایک شخص بنام اصغر بلوچ فوت ہوگیا۔گوادر میں صورتحال مزید خراب ہوئی جہاں راجی مچی کے شرکاء اور مظاہرین پر ایف سی ، سی ٹی ڈی پولیس اور خفیہ اداروں نے آنسوگیس کے شیل پھینکے، گولیاں چلائیں اور لاٹھی چارج کیا ، اس تشدد کے نتیجے میں ایک نوجوان فوت ہوگیا اور کئی زخمی ہوگئے۔

پانک نے اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا جولائی کے مہینے میں بھی بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ابتر رہی۔ بلوچستان میں پاکستانی فورسز نے نہ صرف اپنے آئین بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق سے متعلق قوانین کو بھی پامال کیا۔ اس صورتحال میں بلوچ قوم کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے فوری بین الاقوامی مداخلت اور پاکستان کا محاسبہ ضروری ہے۔