امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وائٹ ہاؤس اور کلیدی ثالثوں ، مصر اور قطر کی جانب سے اسرائیل اور حماس کو جنگ بندی کے کسی معاہدے کی جانب لانے کی کوششوں میں اضافے کے باوجود غزہ میں امن کا ہدف دن بدن دشوار ترہوتادکھائی دے رہا ہے ۔
بائیڈن نے منگل کو اس سوال پر کہ آیا جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کا امکان مزید کم ہورہا ہے، نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ دشوار ترہو رہا ہے۔
بائیڈن نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ اگر اگلے چند دنوں میں کوئی معاہدہ طے پا گیا تو ایران اپنا حملہ روک دے گا۔
اب جب غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی جاری ہے اور لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سرحد پار فائرنگ شدت اختیار کر رہی ہے بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ ایران کی جانب سے بڑے پیمانے پر کوئی حملہ مشرق وسطیٰ میں وسیع تر تنازعے کا باعث بنے گا۔
جنگ بندی کا کوئی معاہدہ ایرانی سرزمین پر حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی حالیہ ہلاکت کے بدلے میں اسرائیل پر تہران کے متوقع حملے کو روکنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے ۔
اسرائیل نے اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن ا س پر بڑے پیمانے پر ہنیہ کی موت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
بائیڈن اور ان کے عہدے دار ، مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے اضافی فوجی اثاثوں کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ ، قطر کے دارالحکومت میں جمعرات کو مجوزہ مذاکرات کے انعقاد پر زور دے رہے ہیں، اگرچہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ ،حماس نے کہا ہے کہ وہ اس میں شرکت نہیں کرے گا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرن یاں پئیر نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے لیے وائٹ ہاؤس کے رابطہ کار بریٹ میک گرک اس ہفتے قاہرہ اور دوحہ میں ہیں، جبکہ سینئر مشیر اموس ہوچسٹین بیروت میں ہیں، تاکہ ایران اور اس کے پراکسی گروپوں کی طرف سے مزید کشیدگی کو سفارتی اور عسکری طریقوں سے روکنے کی کوشش کریں اور سرحدی کشیدگی میں کمی کی حمایت کریں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے خطے کے لیے ابتدائی طور پر منگل کو طے شدہ اپنی روانگی ملتوی کر دی ہے۔
امریکہ نے مزاحمت کو تقویت دینے کے لیے مشرق وسطیٰ میں F-35C اور F-22 ریپٹر جیٹ فائٹرز، USS ابراہم لنکن طیارہ بردار بحری جہاز، اور USS جارجیا آبدوز سمیت اضافی فوجی اثاثے تعینات کیے ہیں۔
امریکہ اور ایران جنگ سے بچنے کے خواہاں ہیں۔
اگرچہ وائٹ ہاؤس اس بات کی تردید کرتا ہے کہ ملکی سیاست جنگ بندی مذاکرات میں ایک محرک عنصر ہے، تاہم ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ ملک میں بڑے پیمانے پر جنگ مخالف مظاہرے ہوتے دکھائی نہ دیں ۔ کیونکہ پارٹی 19 اگست کو اپنے قومی کنونشن کے لیے تیاری کر رہی ہے، جب نائب صدر کاملا ہیرس اور مینیسوٹا کے گورنر ٹم والز کی نومبر میں ہونے والے انتخابات میں، صدارتی اور نائب صدارتی امیدوار کی حیثیت سے باضابطہ نامزدگی کی جائے گی۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ آف نیئر ایسٹ پالیسی کے سینئیر فیلو مائیکل سنگھ نے کہا ہے کہ انتقامی کارروائی کے اپنے دعووں کے ساتھ الگ تھلگ ہونے والا ، ایران بھی ممکن ہے کسی وسیع تر جنگ سے بچنے کے لئے کوئی راستہ تلاش کر رہا ہو۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا، “اگر وہ پیچھے ہٹتا ہے تو خطے اور شاید ایران کے اندر بھی یہ سمجھا جائے گا کہ وہ امریکی دھمکیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ تاہم اگر وہ اپنے منصوبے پر عمل کرتا ہے تو خود کو ایسی جنگ سے نبرد آزماپا سکتا ہے جسے وہ جیت نہیں سکتا۔”
اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے اس خبر کی تردید کی ہے کہ وہ جنگ بندی مذاکرات کے موقع پر ایک نمائندہ دوحہ بھیجنے پر غورکر ر ہا ہے تاکہ وہ امریکہ کے ساتھ پس پردہ بات چیت کر سکے ۔
وائٹ ہاؤس نے وی او اے کی جانب سے اس بات کی تصدیق کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا کہ آیا ایران مذاکرات میں کوئی بالواسطہ کردار ادا کرے گا۔